جامعہ فائرنگ میں زخمی ہوئے شاداب فاروق کو اسپتال سے چھٹی مل گئی ہے، لیکن اس واقعہ سے لوگ اب تک حیران ہیں کہ پولیس کی موجودگی میں آخر یہ کیسے ہو گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چیف پراکٹر نے اس معاملے میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ،اور واقعہ کا ذمہ دار مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو ٹھہرایا ہے، جنہوں نے انتخابی تشہیر کے دوران اشتعال انگیز بیان دیے تھے۔ جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر بھی اس سے بے حد مایوس ہیں، اور دہلی پولس پر کئی سوال بھی اٹھاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ جامعہ چیف پراکٹر وسیم احمد خان نے واقعہ کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’طلباء راج گھاٹ تک مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ہم انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ طلباء کا یہ مارچ پوری طرح سے ایک پرامن احتجاج تھا۔ پھر اس شخص (گوپال شرما) نے گولی کیوں چلائی؟‘انہوں نے کہا’یہ واقعہ انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو مشتعل کیا۔ ہم اس واقعہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پولس اور حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔‘دوسری جانب جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنی مایوسی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ پولس نے وقت رہتے بندوق لیے شخص کو کیوں نہیں پکڑا۔’بندوق لیے شخص سے 30 میٹر کی دوری پر تقریباً دو درجن پولیس اہلکار کھڑے ہوئے تھے، مارچ کو لے کر 300 پولس اہلکار اور سی آر پی ایف کی پانچ کمپنیاں علاقے میں تعینات تھیں۔ پھر یہ سب کیسے ہوا۔‘
جامعہ وی سی نے طلباء کے صبر و تحمل کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ چیزیں ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔ جس کی طرف دھیان دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا’ہمیں اس واقعہ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص پولیس کے سامنے پستول لہرائے اور پولیس اس کو روک نہ سکے۔ پھر وہ کسی کو گولی مارتا ہے اور بہت ہی سہل انداز میں پکڑا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے بھروسے کو توڑ رہا ہے۔‘’مجھے امید ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ پھر سے نہیں ہوگا۔‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS