جب پارلیامنٹ وندے ماترم پر الجھ جائے : عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

پارلیمنٹ کا موسمِ سرما اجلاس اپنے مقررہ دنوں کے ساتھ جاری ہے، مگر اس بار پورے سیشن کا ماحول بھارتی سیاست کے ایک عجیب مگر مانوس تضاد کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ملک اس وقت بے روزگاری، صنعتی سست روی، مہنگائی، آب و ہوا کی خرابی، تعلیم و صحت کے زوال، کسانوں کی مشکلات، اور بڑے معاشی فیصلوں کے عدمِ یقین جیسے حقیقی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، لیکن پارلیمان کے ایوانوں میں بحث کا محور ایک مرتبہ پھر علامتی اور جذباتی موضوعات کی طرف منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وندے ماترم کا مسئلہ انہی سوالات میں سے ایک ہے، جسے حکومت کی طرف سے پورے وزن کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، ایسی فضا میں جب عوام عملی پالیسیوں، روزگار اور ترقیاتی رفتار کے بارے میں فوری اور ٹھوس فیصلوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ بھارتی سماج کی ثقافتی بنیادیں مضبوط ہیں، اور قومی نغمے یا علامتی اقدار کا اپنے طور پر ایک احترام موجود ہے، مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں حکومت قومی علامتوں کو اس انداز سے پیش کرے کہ وہ پارلیمانی فضائے بحث و مباحثہ کی اصل سمت سے دھیان ہٹائیں۔ وندے ماترم کی بحث اسی تناظر میں بے وجہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ نہ تو اس سے کسی شہری کو براہِ راست فائدہ پہنچتا ہے، نہ روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں، نہ مہنگائی کم ہوتی ہے، نہ صنعتوں کے پہیے تیز ہوتے ہیں۔ یہ محض ایک ایسی جذباتی بحث ہے جو ٹی وی اسٹوڈیوز اور سوشل میڈیا پر گرم رہتی ہے، مگر حقیقی زندگی کے مسائل اس سے دور ہی رہتے ہیں۔

آج بھارت کو سب سے زیادہ جس چیلنج نے گھیر رکھا ہے، وہ بے روزگاری ہے۔ لاکھوں نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے سرکاری دفاتر اور نجی کمپنیوں کے گیٹ پر کھڑے ہیں۔ کمپنیاں بھرتیاں کم کر رہی ہیں، اسٹارٹ اپ ایک کے بعد ایک بند ہو رہے ہیں، کنٹریکٹ اور گیگ ورک کا حصہ بڑھ رہا ہے لیکن مستقل اور محفوظ نوکریاں مسلسل کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت اور پارلیمنٹ سے امید یہی ہوتی ہے کہ وہ روزگار کے معاشی بحران کو ایوان کا بنیادی موضوع بنائیں، مگر بدقسمتی سے مباحث کا رخ اکثر ایسے مسائل کی طرف چلا جاتا ہے جن کا عوام کی روزمرہ زندگی سے بہت کم تعلق ہوتا ہے۔

اسی طرح مہنگائی نے گھر گھر میں پریشانی پیدا کر رکھی ہے۔ ضروری اشیائے خوردونوش کے دام اوپر جا رہے ہیں، کرائے، بجلی اور دوا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، عام طبقہ روزمرہ اخراجات کی کشمکش میں پھنسا ہوا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں رہائش اور ٹرانسپورٹ پہلے ہی متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ ان مسائل پر سنجیدہ مکالمے کی طرف کم ہی بڑھتی ہے۔ بجائے اس کے، ملک کی سیاسی توجہ وندے ماترم، نام بدلنے، یا جشنِ ثقافت جیسے موضوعات پر مرکوز رہتی ہے۔

ایک اور بنیادی پہلو ملک کی ترقی کی رفتار ہے۔ پچھلے برسوں میں ترقیاتی اعداد و شمار میں جس سست روی کی نشاندہی کی گئی ہے، اس نے ماہرین معیشت کو فکر مند کیا ہے۔ سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی، مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی مشکلات، برآمدات کی رکاوٹیں، زرعی منڈیوں کا بحران اور ریاستی بجٹ کی تنگی، یہ سب اہم موضوعات ہیں جن پر پارلیمنٹ میں بحث ناگزیر ہے۔ یہ وہ موضوعات ہیں جہاں سے مستقبل کی ترقی کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں، جہاں سے پالیسیاں بنتی ہیں اور جہاں سے عوام کو واضح پیغام جاتا ہے کہ ان کا ایوان ان کے مسائل کو سمجھتا بھی ہے اور حل کرنے کی نیت بھی رکھتا ہے۔لیکن پارلیمانی حقیقت اس کے برعکس کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی ہے۔ ایوان میں اکثر شور شرابہ، نعرے بازی اور علامتی بیانات کا غلبہ رہتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں جب کسی نغمے، کسی جملے یا کسی تاریخی علامت کو سیاسی بحث کا مرکز بنا دیا جائے، تو اس سے عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایوان نے ان کے حقیقی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔

یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر وندے ماترم کی بحث کو اس وقت میں کیوں چھیڑا گیا؟ کیا اس کا تعلق عوام کی زندگی بہتر بنانے سے ہے؟ کیا اس سے کوئی نئی ملازمت پیدا ہوگی؟ کیا اس سے کسانوں کی فصل کا بہتر دام ملے گا؟ کیا اس سے صنعتی پالیسیوں میں بہتری آئے گی؟ کیا یہ معاشی شرحِ نمو کو بڑھائے گا؟ اگر جواب نہیں ہے، تو پھر پارلیمنٹ کے قیمتی وقت کو ایسے غیر عملی موضوعات میں کیوں صرف کیا جا رہا ہے؟

حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی دراصل “سیاسی توجہ بٹانے” کا عمل ہے۔ جذباتی اور علامتی مسائل ہمیشہ عوام میں غم و غصہ یا جوش پیدا کرتے ہیں، اس سے سیاسی ماحول میں سرگرمی بڑھ جاتی ہے، میڈیا پر بحثیں شروع ہو جاتی ہیں، اور حقیقی مسائل پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک آزمودہ سیاسی حربہ ہے جسے کئی حکومتیں ماضی میں بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔ معاشی مشکلات کے زمانے میں قومی جذبات کو ابھارنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے، تاکہ عوام کا غصہ حکمرانوں کی جانب کم متوجہ ہو اور جذباتی بحثوں میں بٹ جاتا ہے۔لیکن اس حکمتِ عملی کا ایک خطرناک پہلو بھی ہے۔ جب پارلیمنٹ حقیقی مسائل سے منہ موڑ کر غیر ضروری علامتی مباحث میں الجھ جاتی ہے، تو جمہوری اداروں کی افادیت کمزور ہونے لگتی ہے۔ عوام میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایوان ان کے مسائل کا حل نکالنے کے بجائے سیاسی اسکورنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ تاثر کسی بھی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہی بے یقینی اعتماد کی کمی میں بدل جاتی ہے، اور اعتماد کی کمی ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کا راستہ روک دیتی ہے۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو وندے ماترم کی بحث پارلیمنٹ کی ترجیحات میں ایک غیر ضروری مقام رکھتی ہے۔ قومی نغمے اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن ان کا تقدس اسی وقت محفوظ رہتا ہے جب وہ اجماع اور احترام کے ساتھ پیش کیے جائیں، نہ کہ انہیں سیاسی ہتھیار یا پارلیمانی ایجنڈا بنا کر پیش کیا جائے۔ جب ایسے موضوعات روزگار، صحت، آلودگی، صنعت، کسان، تعلیم اور ترقی جیسے بنیادی مسائل کے مقابلے میں مرکزی بحث بن جائیں، تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ایوان اپنی اصل ذمہ داریوں سے دور ہٹ رہا ہے۔ملک کے نوجوان آج سب سے زیادہ بے چینی کا شکار ہیں۔ ان کے لیے روزگار کی راہیں تنگ ہو رہی ہیں، مسابقت بڑھ رہی ہے، اور امیدیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں انہیں قومی شناخت کے مباحث سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی پالیسیاں کس سمت جا رہی ہیں، ترقی کے مواقع کیسے بڑھیں گے، اور ان کے مستقبل کی ضمانت کون دے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب پارلیمنٹ کو دینے چاہئیں، مگر اس وقت ایوان میں ایک ایسا ماحول بن چکا ہے جہاں جذباتی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وندے ماترم کی بحث ایک مثال ہے کہ کس طرح سیاسی فضا کو علامتی مسائل کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے، اور کیسے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ اب اس حکمتِ عملی کو سمجھنے لگا ہے، اور اسی لیے یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ پارلیمنٹ اپنی ترجیحات بدل کر عملی، معاشی، سماجی اور ترقیاتی موضوعات کو ایوان کا مرکز بنائے۔

وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ ایک بار پھر اپنی اصل روح کو پہچانے، بحث برائے اصلاح، مکالمہ برائے حل، اور پالیسی برائے ترقی۔ قومی علامتیں جذباتی وابستگی ضرور پیدا کرتی ہیں، مگر ملک کی تعمیر صرف جذبات سے نہیں، عمل سے ہوتی ہے۔ عوام کو آج ضرورت وندے ماترم گانے کی نہیں، بلکہ وندے بھارت بنانے کی ہے، ایک ایسا بھارت جو روزگار دے ترقی کرے اور دنیا میں مضبوط مقام حاصل کرے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS