مولانا ارشد مدنی کا بیان مسلمانان ہند کے جذبات کی عکاسی

0

عبدالماجد نظامی

مولانا ارشد مدنی جو جمیعت علماء ہند کے صدر ہیں اور عالمی شہرت کا حامل تاریخی اسلامی ادارہ دارالعلوم دیوبند کی آبیاری کے فریضہ سے جن کی وابستگی بہت قدیم، جذباتی اور فکری ہے انہوں نے چند دنوں قبل جمیعت علماء ہریانہ کے اسٹیج سے مسلمانوں کے مسائل پر جس انداز میں روشنی ڈالی تھی وہ صرف جرأتمندانہ کوشش اور حقیقت بیانی کے زمرہ میں ہی نہیں آتی ہے بلکہ اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی کے احساس کی جھلک بھی اس خطاب میں صاف نظر آتی ہے جو ان کے خانوادہ سے ان کو ورثہ میں ملا ہے۔ مولانا ارشد مدنی ہندوستان کے ان نامور علماء کی وراثت کے امین ہیں جنہوں نے اس ملک کی آزادی کی راہ میں ایسی صعوبتیں برداشت کی ہیں جن کا تصور بھی وہ طبقہ نہیں کر سکتا جس نے استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کے مفادات کو نقصان پہونچانے کا کام کیا تھا۔ مولانا ارشد مدنی میں اس جرأت اور صاف گوئی کا ہنر اس لئے پیدا ہوسکا ہے کیونکہ ان کی تربیت ان ہاتھوں میں ہوئی ہے جنہوں نے حب الوطنی میں اپنا سب کچھ قربان کیا تھا، جنہوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ آزادئ وطن کی راہ میں ہر شئ کو قربان تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ انگریزی استعمار کی ظالمانہ اور مجرمانہ قوت سے مرعوب ہوکر ان کی چاکری کو قبول کرلیں۔ اسیرانِ مالٹا کے یہ وہ سچے سپوت ہیں جنہوں نے موت کو اس قدر ہیچ سمجھا تھا کہ اپنے ساتھ اپنا کفن ہر وقت ساتھ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس آج جو طاقتیں مسلمان اور اسلام دشمنی میں اس قدر اندھی ہوچکی ہیں کہ وہ تمام دستوری اور اخلاقی حدود کو چھلانگ چکی ہیں اور مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کے خلاف صرف فکری یلغار ہی پر بس نہیں کر رہی ہیں بلکہ ان کی عبادتگاہوں، اسلامی مراکز اور ان کے اوقاف تک کو گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ مدت سے نشانہ بنائے جا رہی ہیں ان کی اپنی تاریخ اس قدر افسوسناک ہے کہ کوئی مہذب تنظیم یا جماعت اس پر فخر کرنے کے بجائے نادم و شرمندہ ہونا پسند کرے گی۔ مولانا ارشد مدنی نے بجا طور پر کہا ہے کہ اس ملک کے مسلمان کہیں باہر سے نہیں آئے ہیں جیسا کہ سنگھ کا گروہ اور اس کی سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی شب و روز اس کا پروپیگنڈہ کرتی رہتی ہے۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی اسلام کو کسی پر تھوپا نہیں گیا۔ اسلام خود اپنے اعلی اصولوں کی بنیاد پر اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی قوم یا فرد پر اپنا عقیدہ یا طریقہ مسلط کرے۔اسلام کی آمد کے بعد جن طبقات نے بھی اس ملک میں اسلام کو قبول کیا وہ اس کی تعلیمات کی سادگی، دل و دماغ کو مطمئن کر دینے والے اس کے فطری دلائل اور مساوات کے بے لاگ فکر و عمل کی بنیاد پر اس کو قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا کوئی ایسا طبقہ یا خاندان نہیں جس تک اسلام کی رسائی نہ ہوئی ہو اور ان کے افراد نے تدریجی طور پر اپنی مرضی سے اس کو قبول نہ کیا ہو۔ ہر ذات پات اور خطہ و علاقہ کے لوگوں کا اسلام میں داخل ہونا اور صدیوں بیت جانے کے بعد اس کو سینہ سے لگائے رہنا بلکہ اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی پیش کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ اس کی تعلیمات کا اثر کسی محدود تاریخی دور یا خطہ تک محصور نہیں رہا بلکہ نسل در نسل اسلام کے ساتھ وابستگی کو یقینی بنانے کے لئے ان کے آباء و اجداد نے کوششیں کیں اور آج بھی لوگ اس کو سینہ سے لگائے ہوئے ہیں اور ہندوتو کے مظالم کے باوجود اس سے سر مو انحراف کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مسلمانان ہند صرف محب وطن اور غیور ہی نہیں واقع ہوئے ہیں بلکہ صلاحیتوں اور قابلیتوں سے اس قوم کو خالق فطرت نے بے پناہ حد تک نوازا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ان تمام صلاحیتوں کا استعمال ملک اور ابناء ملک و قوم کی خدمت میں ہمیشہ کیا ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا میدان نہیں جس پر مسلمانان ہند نے اپنی گہری چھاپ نہ چھوڑی ہو۔ سیاست و اقتصاد اور سائنس و ٹکنالوجی سے لے کر ادب و فنون لطیفہ اور موسیقی و طب یہاں تک کہ کھیل کود اور فکر و فن کا کوئی میدان ایسا نہیں جس میں ان کا خصوصی امتیاز سر چڑھ کر نہ بولتا ہو۔ جب مولانا ارشد مدنی یہ کہتے ہیں کہ آج کا حکمراں طبقہ مسلمانوں کی ترقی کی راہیں بند کر رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں اور ان کے کمالات کے مظاہرہ کا موقع انہیں نہیں دیا جا رہا ہے تو وہ کوئی الف لیلہ کی داستان نہیں سنا رہے ہیں بلکہ ٹھوس تاریخی شواہد کی طرف باشندگانِ ملک اور اربابِ اقتدار کی توجہ مرکوز کروا رہے ہیں اور انہیں بتا رہے ہیں کہ انہیں حق پسندی اور انصاف سے کام لینا چاہئے۔ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہندوستان کا مسلمان ان تمام خوبیوں سے لیس ہے جن کے استعمال سے اس ملک اور یہاں کے عوام کی زندگی میں شاندار مثبت تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ظہران ممدانی کے حوالہ سے غالبا اسی لئے بات کی کیونکہ وہ اس حقیقت کو کھول کر بتانا چاہتے تھے کہ اسی ملک سے ہجرت کرکے امریکہ جانے والے محمود ممدانی کے بیٹے کو جب اس کی صلاحیتوں کے استعمال کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تو وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس دنیا کے سب سے بڑے اور ترقی کی آخری بلندی پر براجمان شہر نیویارک کی قیادت کے لئے مطلوب ساری خوبیاں اس میں موجود ہیں۔ اگر ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کو یہ موقع فراہم کیا جائے اور ان کے ساتھ دوہرا سلوک نہ کیا جائے تو یہاں بھی ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں ہے۔ مولانا ارشد مدنی عوام کے ساتھ اپنا شب و روز گزارتے ہیں، ملک کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملک سے محبت ان کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے اس لئے پوری قوت اور جذبات کی اتھاہ گہرائی سے انہوں نے وہ سب کچھ کہا ہے جس کو ان کے ذمہ دار دل و دماغ نے محسوس کیا ہے۔ وہ عمر کے جس پڑاؤ میں ہیں اس میں فکر کی پختگی اور عمل کی درستگی اپنے عروج پر ہے۔ انہوں دیس و دنیا کے بنتے بگڑتے حالات کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان کی زندگی خود تاریخ کے قیمتی اوراق سے عبارت ہے۔ اس لئے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بڑی ذمہ داری اور ہوش میں کہہ رہے ہیں۔ اس ملک کے ارباب اقتدار کو چاہئے کہ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی پالیسیوں پر نظر کریں۔ ان تمام پالیسیوں سے باز آئیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنا اس لئے ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اس ملک کے شہری ہیں جنہیں دستور ہند میں مساوی حقوق عطا کئے ہیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد دستور پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اپنے خاص تنگ سیاسی یا ثقافتی نظریہ کے مطابق ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ ایسا معاملہ کرتی ہے تو یہ سراسر دستور کے ساتھ غداری اور اس ملک میں مسلمانوں کی شاندار تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ اس قسم کا برتاؤ کسی اعتبار سے بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہئے۔کیا ہی اچھا ہو کہ مولانا ارشد مدنی کی باتوں پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ ارباب اقتدار غور کریں اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا سلسلہ بند کیا جائے۔ لیکن سنگھ کے الگ الگ ذیلی گروہوں کی طرف سے جو ردعمل سامنے آئے ہیں ان سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاید اپنی مسلمان مخالف پالیسیوں پر نظر ثانی کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔ البتہ ملک کے عوام سے اس کی توقع ضرور کی جانی چاہئے کہ جلد یا بدیر وہ ایسی سیاسی جماعتوں یا ثقافتی تنظیموں کو سبق سکھائیں گے اور ان کی نفرت آمیز سیاست کو مسترد کر دیں گے۔ اس ملک کے مفادات کا تحفظ بہر صورت اس کے دستور سے ہی ہوگا جس میں اس ملک کے تمام شہریوں کے لئے یکساں حقوق اور یکساں ذمہ داریاں طے کی گئی ہیں۔ امتیازی سلوک پر مبنی سیاسی نظریہ کا خاتمہ یقینی طور پر مقدر ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS