عبدالماجد نظامی
سماج وادی پارٹی کے بانیوں میں سے ایک نہایت اہم ترین سیاسی شخصیت اور اترپردیش مسلم تشخص کو نئی پہچان دلانے والے قد آور لیڈر اعظم خان کی سیتاپور جیل سے 23 ستمبر 2025 بروز منگل کو جب رہائی ہونے والی تھی تو پورے ملک میں ان کی آمد کا انتظار ہو رہا تھا۔ نہ جانے کتنی آنکھیں اس دن کو دیکھنے کے لئے ترس گئی تھیں اور ہزاروں ہاتھ روئے آسمان دعاء و مناجات میں اٹھے ہوئے تھے۔ اس میں وہ آنکھیں اور وہ ہاتھ بھی تھے جن کو اعظم خان سے سیاسی و فکری اختلاف ہوسکتا ہے یا ہے۔ اعظم خان نے 23 مہینے جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارا تھا۔ اذیتوں کو برداشت کیا تھا۔ اپنوں اور پرایوں کے بے بنیاد طعنے برداشت کئے تھے۔ سخت ذہنی خلجان اور دماغی کوفت کے مراحل سے گزرے تھے۔ لیکن ان کی شخصیت میں ایک خاص عنصر موجود ہے جس نے ان کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ وہ عنصر ان کا اپنے رب اور اپنی ایمان داری پر اعتماد خالص کا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی گرفتاری کا اصل نشانہ ان کی ذات یا ان کا گھر و خاندان نہیں ہے بلکہ وہ پوری قوم ہے جو آج کی نفرت زدہ سیاست کے نشانہ پر ہے۔
اعظم خان جانتے تھے کہ ان کے لئے بے حد ضروری ہے کہ وہ اس قانونی لڑائی کو اپنی ذات کے محدود دائرہ میں رہ کر نہ دیکھیں اور نہ ہی خودی کی حفاظت کی اس جنگ کو معمولی سمجھ کر کسی زاویہ میں گُم ہوجائیں۔ بطور لیڈر ان کے سیاسی تجربات اور ان کی قانونی مہارت نے ان کے ذہن و دماغ کو روز اول سے یہ سمجھایا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی جنگ ہوگی۔ اس میں کمزور پڑ جانا یا مایوسی کے دلدل میں خود کو دھکیل دینا اس غیور قوم کی نفسیات پر سخت حملہ کے مترادف ہوگا جس کو نیچا دکھانے یا جس کی اوقات بتانے کے لئے ان پر نہایت سطحی اور گھٹیا قسم کے الزامات عائد کرکے انہیں قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا گیا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ ہر اس شخص کو ہوجائے گا جو اعظم خان پر لگائے گئے الزامات کی فہرست پر غور کرے گا۔ سابق کابینی وزیر اعظم خان کو سب سے پہلے فروری 2020 میں جیل کے اندر ڈالا گیا تھا۔
ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ اعظم خان کی تاریخ پیدائش سے متعلق دستاویز میں جعلی پن کا ارتکاب کیا ہے۔ کیا ایک کابینی وزیر، قانون کے ماہر اور عوامی مقبولیت کے عروج پر پہونچنے والے ایک لیڈر کو ایسی کسی حرکت کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ بادی النظر میں صاف پتہ چلتا ہے کہ جو طاقتیں ان پر ہاتھ ڈال رہی تھیں وہ جانتی تھیں کہ ان پر کرپشن و بدعنوانی یا ریاست کے نظم و انتظام میں خلل اندازی جیسے الزامات ان پر عائد نہیں کئے جا سکتے اس لئے مختلف انداز کے مقدمات میں انہیں پھنسایا گیا۔ لیکن چونکہ اس کیس کا بودا پن ایسا تھا کہ اس کو زیادہ کھینچا نہیں جا سکتا تھا لہذا اس معاملہ میں سپریم کورٹ نے انہیں مئی 2022 میں ضمانت دے دی اور وہ جیل سے باہر آگئے۔ اگر معاملہ یہیں پر رک جاتا تو یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ روٹینی قانونی کارروائی تھی جس میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور اس سے زیادہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔
لیکن چونکہ انہیں توڑ کر ملک کی مسلم اقلیت کو یہ پیغام دینا تھا کہ تم اس ملک میں سیاسی اچھوت بنا دیئے گئے ہو اس لئے تمہاری سیاسی قوت کی ان تمام علامتوں کو مٹایا جائے گا جس کی وجہ سے تم اس ملک میں خود کو ایک باوقار شہری بن کر جینے کا حوصلہ پاتے ہو۔ اسی مقصد کے پیش نظر اکتوبر 2023 میں انہیں جائدادوں اور زمینوں کے معاملہ میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ حال ہی میں جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے کئی میڈیا چینلوں سے مخاطب ہوکر اپنے اوپر لگائے فرضی مقدمات کی فہرست پیش کی ہے اور ان کے جو اثرات ان کے دل و دماغ پر مرتب ہوئے ہیں ان کی جھلکیاں سامنے لائے ہیں۔ لیکن معروف ماہر قانون اور سابق مرکزی کابینی وزیر کپل سبل کے پلیٹ فارم “دل سے” میں جو تفصیلات انہوں نے بیان کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے مظالم کا شکار انہیں بنایا گیا۔ قارئین کو چاہئے کہ وہ اپیسوڈ کو دیکھیں اور سمجھیں کہ آخر کس گناہ کی سزا انہیں دی جا رہی تھی۔ ان کا پورا گھرانہ جس میں ان کی اپنی ذات کے علاوہ اہلیہ اور بیٹا شامل ہیں سب کے سب جیل میں ایسے ڈال دیئے گئے جیسے وہ کوئی معمولی مجرم ہوں جن کا کوئی پرسان حال تک نہ ہو۔
کیا یہ کوئی معمولی بات تھی کہ ایک سابق کابینی وزیر اور سماج وادی پارٹی کے بانی کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کے لئے جو قانونی راستے اختیار کئے جائیں وہ نہایت سطحی اور بیہودہ ہوں؟ کیا انہیں اس بات کے لئے سزا دی جا رہی تھی کہ انہوں نے علم و دانش کا ایک عظیم مرکز رامپور میں قائم کیا تھا؟ کیا اعظم خان جیسے قدآور لیڈر، نہایت فصیح و بلیغ مقرر، قانون کی اعلی تعلیم سے آراستہ، سر سید کے باغ علم و ادب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے امتیازی ڈگری حاصل کرنے والے ذی علم و ذی ہوش دانش ور اور عوامی تحریک کی طویل مدت تک قیادت کرنے والے قائد کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ کسی کی دو بالشت زمین ہڑپ لے، مرغیاں اور بھینس چرالے یا میونسپلٹی کی ایک معمولی مشین اپنے پاس رکھ لے؟ ہرگز نہیں! دراصل انہیں نشانہ بنانے والے جانتے تھے کہ ان کی شخصیت ملک کی مسلم اقلیت کے لئے جاذبیت کا ایک خاص مرکز بن چکی ہے۔ ان کی شکل میں ایسا رول ماڈل یہاں کی اقلیت کو مہیا ہوگیا ہے جن کی طرف نوجوان نسل بطور اسوہ اور نمونہ کے دیکھتی ہے۔
اعظم خان علم وحکمت، سیاسی سوجھ بوجھ، بے داغ طرز حیات اور پر زور طرز بیان کی وجہ سے ہمت و عزیمت کی اعلی مثال بن چکے ہیں۔ جب تک اس نشان کو داغ دار نہیں بنایا جائے گا تب تک مسلم اقلیت کو توڑا نہیں جا سکتا یا انہیں نظریں نیچی رکھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو اعظم خان کا ہمالیائی حوصلہ اور ملک کے عدالتی نظام میں اٹل اعتماد ہی تھا کہ اس نے انہیں پر عزم اور رفعت پسند رکھا۔ آج جبکہ وہ جیل سے رہا ہوکر اپنے مداحوں اور خیر خواہوں میں سلامت لوٹ آئے ہیں تو مسلم اقلیت کو نیا درسِ حیات یہ ملا ہے کہ ظلم کی لاکھ آندھیاں چلے اور سازشوں کے کتنے بھی طوفاں اٹھ کھڑے ہوں ہمیں پوری قوت کے ساتھ نفرتی تنظیموں اور جماعتوں کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ اغیار ہمیں توڑنے یا شکست دینے میں کامیاب نہ ہوں۔ اعظم خان کا جیل جانا ان کے لئے وقتی صعوبتوں کا ذریعہ ضرور بنا ہے لیکن ان کا فتحیاب لوٹنا آئندہ نسلوں میں نئے جوش و خروش کو جنم دے گا اور قوم و ملت کے مفادات کے تحفظ کی راہ میں قربانیوں کے لئے راہیں ہموار کرے گا۔ آج اعظم خان اور ان کے اہل خانہ کی قربانیوں کی وجہ سے ان کا قد پہلے سے بہت زیادہ بلند ہوگیا ہے اور تاریخ میں ایک زریں باب کے طور پر درج رہے گا۔ جو طاقتیں ملک کی مسلم اقلیت کو مایوسی کے غار میں دھکیلنا چاہتی تھیں آج ناکامی و مایوسی خود ان کا مقدر بن چکی ہے۔
 
			





