عبدالماجد نظامی
تعلیم یافتہ بے روزگاری آج بھارت کے سامنے سب سے بڑے سماجی و اقتصادی چیلنجز میں سے ایک بن چکی ہے۔ بظاہر ملک ترقی اور ڈیجیٹل انقلاب کی راہ پر گامزن ہے، مگر جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان برسوں کی محنت کے بعد بھی کسی باعزت ملازمت سے محروم رہتا ہے، تو یہ ترقی کا نہیں بلکہ نظام کی کمزوری کا آئینہ بن جاتا ہے۔ آج بھارت میں لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے ڈگریاں تو حاصل کر لیں مگر ان کے لیے بازارِ کار میں مناسب مواقع میسر نہیں۔
یہ مسئلہ صرف روزگار کی کمی تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات معاشرتی سطح تک گہرے ہیں۔ جب تعلیم یافتہ نوجوان کو اس کے مطابق کام نہیں ملتا، تو اس کی ذہنی کیفیت، سماجی رویّہ، اور ریاست پر اعتماد — تینوں متاثر ہوتے ہیں۔ مایوسی بڑھتی ہے، صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں، اور بالآخر ایک فعال شہری بے یقینی کے اندھیروں میں کھو جاتا ہے۔ ایسے نوجوان جو ملک کے لیے سرمایہ بن سکتے تھے، نظام کے لیے بوجھ بننے لگتے ہیں۔
اعداد و شمار اس بحران کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ نیشنل سیمپل سروے کے مطابق 2023-24 میں تعلیم یافتہ افراد میں بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد سے تجاوز کر گئی، جو غیر تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شرح تقریباً 8 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ خاص طور پر 20 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان، جو ملک کی افرادی قوت کا سب سے سرگرم طبقہ ہیں، روزگار کی دوڑ میں سب سے پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک میں جہاں ہر سال لاکھوں طلبہ انجینئرنگ، مینجمنٹ، سوشل سائنس، اور دیگر پروفیشنل کورسز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، وہ بھی روزگار کے بحران کا شکار ہیں۔ کئی ریاستوں میں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہولڈرز چپڑاسی یا کلرک کی آسامیوں کے لیے درخواستیں دینے پر مجبور ہیں۔ یہ صرف ایک سماجی المیہ نہیں بلکہ نظامِ تعلیم اور پالیسی سازی کے درمیان واضح عدم توازن کا ثبوت ہے۔
اس بحران کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری تعلیمی پالیسی مارکیٹ کی عملی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پائی۔ جامعات اور کالجوں میں آج بھی وہی نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو عشروں پہلے ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ دنیا تیزی سے بدل چکی ہے۔ صنعتی انقلاب کے چوتھے مرحلے میں جہاں Artificial Intelligence، Robotics، Automation اور Data Science جیسے شعبے نئی نوکریاں پیدا کر رہے ہیں، بھارت کے بیشتر تعلیمی ادارے ابھی تک محض تھیوری پر مبنی تعلیم دینے تک محدود ہیں۔ نتیجہ یہ کہ نوجوان کے پاس ڈگری تو ہے، مگر مہارت نہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر اس سمت میں بنیادی اصلاحات لائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنر پر مبنی تعلیم (Skill-Based Education) کو لازمی نصاب کا حصہ بنائے، تاکہ نوجوان ڈگری کے ساتھ عملی صلاحیت بھی حاصل کر سکیں۔ صنعتی اداروں کو تعلیمی بورڈز کا حصہ بنایا جائے تاکہ نصاب میں وہی مضامین شامل ہوں جن کی مارکیٹ میں مانگ موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو نجی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے انٹرن شپ پروگرامز، تربیتی مراکز، اور اپرنٹس شپ اسکیمیں شروع کرنی چاہئیں تاکہ طلبہ کو پڑھائی کے دوران ہی عملی تجربہ حاصل ہو۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو اب “نوکری دینے والا ملک” نہیں بلکہ “نوکری پیدا کرنے والا ملک” بننا ہوگا۔ اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینا، چھوٹے کاروباروں کے لیے آسان قرض کی سہولت فراہم کرنا، اور نوجوانوں کو کاروبار شروع کرنے کے لیے تکنیکی رہنمائی دینا وقت کی ضرورت ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں بھارت نے اسٹارٹ اپ انڈسٹری میں عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کیا ہے، مگر یہ سہولت ابھی بھی محدود شہروں تک محدود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دیہی اور نیم شہری علاقوں تک ان مواقع کو پھیلائے تاکہ ہنر مند نوجوان بھی ملک کی اقتصادی ترقی میں براہِ راست حصہ لے سکیں۔
خواتین کی تعلیم یافتہ بے روزگاری اس بحران کا ایک اور پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق، تعلیم یافتہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 20 فیصد ہے، جو مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی وجوہات میں سماجی قدغنیں، محدود ملازمت کے مواقع، اور کام کی جگہوں پر عدم تحفظ شامل ہیں۔ حکومت کو خواتین کے لیے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے وہ گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ ریموٹ ورک، آن لائن کاروبار، اور محفوظ ورک اسپیسز کے فروغ سے یہ خلا کسی حد تک پُر کیا جا سکتا ہے۔
عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو روزگار کی نوعیت تیزی سے بدل رہی ہے۔ آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے باعث دنیا بھر میں روایتی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں، جبکہ نئی ٹیکنالوجی پر مبنی نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ بھارت کے نوجوانوں کو اس نئی معیشت کے مطابق خود کو تیار کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو “ڈیجیٹل اسکل ڈیولپمنٹ مشن” جیسی اسکیموں کو مزید وسعت دینا چاہیے تاکہ ہر سطح پر نوجوان جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو سکیں۔
انتخابی سیاست میں روزگار کا مسئلہ اکثر پس منظر میں چلا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مضبوط معیشت اور مستحکم جمہوریت کی بنیاد ہی روزگار پر ٹکی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، بھارت کی سیاست میں اب بھی مذہب، ذات، اور علاقائی تعصبات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ نوجوان ووٹرز کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اپنے مستقبل کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسے رہنماؤں کو منتخب کرنا ہوگا جو روزگار، تعلیم، اور معیشت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ یہی ووٹ کی اصل طاقت ہے۔
تعلیم یافتہ بے روزگاری کا بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا، نہ ہی ایک دن میں ختم ہوگا۔ یہ برسوں کی غفلت، غلط ترجیحات، اور جزوی اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ حکومت، تعلیمی ادارے، اور نجی صنعت ایک مشترکہ وژن کے ساتھ آگے بڑھیں۔ نصاب میں جدت، ہنر مندی میں وسعت، اور روزگار میں شفافیت — یہی تین ستون ہیں جن پر ایک مضبوط بھارت کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔
تعلیم یافتہ بے روزگاری محض ایک اقتصادی اشاریہ نہیں بلکہ قوم کے فکری اور تخلیقی سرمایے کا امتحان ہے۔ اگر حکومت نوجوانوں کے لیے پالیسی سازی میں تاخیر کرتی رہی تو یہ تاخیر آنے والی نسلوں کے اعتماد کو متزلزل کر دے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیم، ہنر، اور روزگار کے درمیان مضبوط پل قائم کیا جائے تاکہ بھارت کا نوجوان اپنی صلاحیتوں کے بل پر ایک مضبوط، خود کفیل اور جدید بھارت کی تعمیر کر سکے۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف روزگار کے بحران کو ختم کرے گا بلکہ بھارت کو ایک حقیقی معنوں میں خوشحال، باوقار اور ترقی یافتہ قوم بنا سکے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com






