کیا غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ واقعی رک جائے گا؟ جنگ بندی کے بعد کا نیا موڑ: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

دو سال اور دو دن تک جاری رہنے والی خون آشام جنگ کے بعد بالآخر فلسطین کی سرزمین پر ایک ایسی خبر آئی ہے جس نے دنیا بھر کے انصاف پسند انسانوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا ہے۔ اکتوبر 2025 کے دوسرے ہفتے میں مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں طویل مذاکرات کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ پر دستخط کیے گئے، جس کا پہلا مرحلہ نافذ ہو چکا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں غزہ کی فضا میں اگرچہ ابھی سکون پوری طرح نہیں لوٹا، لیکن ایک امید کی کرن ضرور روشن ہوئی ہے — کہ شاید فلسطین کے عوام کو اب کچھ وقت کے لیے ہی سہی، مگر قتل و بربادی سے نجات ملے۔

یہ جنگ بندی دراصل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی مجوزہ روڈ میپ کا حصہ ہے، جسے امریکہ، مصر، قطر، اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں آگے بڑھایا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منصوبہ کسی بھی طور پر منصفانہ نہیں، کیونکہ اس میں اسرائیل کی ساکھ بحال کرنے اور اس کے یرغمال بنے شہریوں کی رہائی کو بنیادی اہمیت دی گئی، جبکہ فلسطین کے دیرینہ سیاسی اور انسانی حقوق کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ اس کے باوجود حماس نے یہ تجویز قبول کر لی — صرف اس لیے کہ وہ اپنے عوام کو مزید قتل عام اور تباہی سے بچانا چاہتی تھی۔ پچھلے دو برسوں میں غزہ کی تباہی کی جو تصویر دنیا کے سامنے آئی، وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں لکھی جائے گی۔ اس عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ شہر در شہر ملبے کا ڈھیر، ہسپتال خاکستر، اسکول تباہ، اور پناہ گزین کیمپ لاشوں میں بدل گئے۔ ایسے میں عرب اور مسلم دنیا کی خاموشی نے اس المیے کو اور بھی دردناک بنا دیا۔ ان ممالک سے جس حمایت کی امید تھی، وہ نہ مالی صورت میں ملی، نہ عسکری، نہ سفارتی۔ افسوس کہ جو کردار مسلم حکومتوں کو ادا کرنا چاہیے تھا، وہ کردار مغربی ملکوں کے عوام نے نبھایا۔

جب مسلم دنیا کی قیادتیں مصلحت کا لبادہ اوڑھے بیٹھی تھیں، تب یورپ، امریکہ، اور آسٹریلیا کے عوام نے اپنی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہو کر فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ یونیورسٹیوں، بازاروں، اور سڑکوں پر لاکھوں افراد نے مسلسل احتجاج کیا۔ امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات نے اپنے اداروں کے مالی تعلقات اسرائیلی کمپنیوں سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا، حتیٰ کہ کئی طلباء نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے روشن مستقبل کو قربان کر دیا، مگر خاموش نہ بیٹھے۔ مائیکروسافٹ، گوگل اور ایپل جیسے کارپوریٹ اداروں کے اندر بھی ملازمین نے کھل کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیانات دیے۔ کئی خواتین ملازمین نے استعفے دے کر اپنی کمپنیوں پر فلسطینی نسل کشی میں شراکت کا الزام لگایا۔ یہی اخلاقی دباؤ تھا کہ برطانیہ، فرانس، اسپین اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو عوامی دباؤ کے تحت یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ محض سیاسی اعلانات نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا میں ضمیر ابھی مکمل مردہ نہیں ہوا۔ ایسے ہی احتجاجوں نے اسرائیل کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا۔

اکتوبر 2025 کے اوائل میں طویل مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے شرم الشیخ میں جنگ بندی کی تجویز پر دستخط کیے۔ معاہدے کے پہلے مرحلے کے مطابق 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ حماس نے تقریباً 45 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے 300 سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں 80 بچے اور 60 خواتین شامل تھیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے کئی علاقوں سے انخلاء شروع کیا اور شمالی غزہ کے بعض اضلاع اب “زرد زون” میں آ گئے ہیں جہاں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں عارضی امن فوج تعینات کی گئی ہے۔ انسانی امداد کی فراہمی میں بھی تیزی لائی گئی۔ اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، اور عالمی ادارۂ صحت نے مشترکہ منصوبہ شروع کیا ہے تاکہ خوراک، دوائیں، اور پینے کا صاف پانی غزہ کے شہریوں تک پہنچ سکے۔ صرف پہلے ہفتے میں 1200 ٹرک امدادی سامان لے کر رفح کراسنگ سے داخل ہوئے، جو پچھلے مہینوں کی نسبت دس گنا زیادہ ہے۔ تباہ شدہ لاشوں کی تلاش اور تدفین کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ سینکڑوں شہداء کی باقیات ملبے سے نکالی جا رہی ہیں تاکہ اجتماعی قبروں میں دفن کیے جانے کے بجائے ان کی شناخت ممکن ہو۔

اگرچہ گولیوں کی آوازیں کچھ مدھم ہوئی ہیں، مگر غزہ کی زندگی اب بھی ایک کھنڈر ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 22 لاکھ میں سے 18 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ شہر کا 90 فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں دوائیاں ختم، پانی آلودہ، اور بجلی کا نظام درہم برہم ہے۔ انسانی بحران اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کئی مقامات پر لوگ گھاس اور درختوں کے پتوں سے پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امدادی سامان کی فراہمی میں تسلسل نہ رہا، تو جنگ بندی کے باوجود قحط اور بیماریوں سے ہزاروں مزید جانیں جا سکتی ہیں۔ دوسری طرف، حماس نے غزہ میں اپنی انتظامی طاقت بحال کرنا شروع کر دی ہے۔ پولیس اور مقامی عملہ ملبہ ہٹانے اور قانون و نظم قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر وسائل کی شدید کمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اس پورے بحران نے ایک بار پھر مسلم دنیا کے ضمیر کو آئینہ دکھا دیا۔ مصر، اردن اور خلیجی ریاستوں کی سرحدیں فلسطین سے متصل ہونے کے باوجود ان حکومتوں نے غزہ کے عوام کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ اگر یہی ممالک ایک انسانی قافلہ نکالتے، تو اسرائیل کے محاصرے کو توڑا جا سکتا تھا، مگر یہ ہمت صرف مغربی عوام نے دکھائی۔ خاص طور پر سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے دو مرتبہ “فریڈم فلوٹیلا” نامی بحری قافلے کی قیادت کی تاکہ سمندر کے راستے انسانی امداد غزہ پہنچائی جائے۔ اگرچہ اسرائیل نے دونوں قافلوں کو روکا اور شرکاء کو قید میں ڈالا، مگر ان کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب پڑوس کے ہم مذہب خاموش رہے، تب دنیا کے دوسرے حصوں کے لوگ انسانیت کا پرچم تھامے کھڑے ہوئے۔

معاہدے کے بعد عالمی سطح پر ایک نئی فضا بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کے لیے خصوصی مشن تشکیل دیا ہے، جبکہ یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے دوبارہ جارحیت کی تو اس پر معاشی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ برطانیہ، فرانس اور اسپین نے فلسطین کو “ڈی فیکٹو آزاد ریاست” کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکہ میں بھی عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ واشنگٹن میں لاکھوں افراد نے جنگ بندی کے حق میں ریلی نکالی، اور امریکی کانگریس کے درجنوں ارکان نے اسرائیلی امداد پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا۔ یہ وہ منظرنامہ ہے جس کا تصور چند سال پہلے تک ناممکن تھا۔

اگرچہ موجودہ جنگ بندی ایک نرم آغاز ہے، لیکن اس کے مستقبل پر کئی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے ماضی میں بھی متعدد معاہدوں کو توڑ دیا یا تاخیر کا شکار کیا۔ اگر اس بار بھی ایسا ہوا، تو حالات دوبارہ بھڑک سکتے ہیں۔ تاہم ایک پہلو اس بار مختلف ہے: دنیا بھر میں اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف اخلاقی بیداری کی نئی لہر اٹھ چکی ہے۔ یہ بیداری صرف احتجاج تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات کی صورت اختیار کر رہی ہے — سرمایہ کاری کی منسوخی، ثقافتی بائیکاٹ، اور قانونی چارہ جوئی جیسے اقدامات اب عالمی سطح پر زور پکڑ رہے ہیں۔ فلسطینی عوام، جنہوں نے اس دو سالہ قیامت میں سب کچھ کھو دیا، اب بھی عزم و حوصلے سے کھڑے ہیں۔ غزہ کے نوجوان، ملبے پر بیٹھ کر، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جو بتاتا ہے کہ فلسطین کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی، بلکہ ایک نئے باب میں داخل ہو چکی ہے۔

غزہ کی مٹی پر بہنے والا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اگرچہ یہ جنگ بندی مکمل انصاف نہیں، مگر یہ ایک تاریخی موڑ ہے جہاں ظلم کے مقابلے میں انسانیت نے ایک بار پھر اپنی موجودگی ثابت کی ہے۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ جب مسلم دنیا کے حکمران مصلحتوں کے بندھن میں قید تھے، تب مغرب کے انصاف پسند عوام، طلباء، اساتذہ، اور کارکن میدان میں اترے۔ انہوں نے بتایا کہ انسانیت مذہب، نسل یا جغرافیہ کی قید میں نہیں۔ غزہ کے شہداء کے خون سے لکھی گئی یہ داستان شاید ابھی ادھوری ہے، مگر اب اس میں ایک نیا باب شامل ہو گیا ہے — امید کا، مزاحمت کا، اور بیداری کا۔ فلسطین کے بچے آج بھی ملبے میں کھیلتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں

“ہم زندہ ہیں، ہم آزاد ہوں گے، اور ایک دن یہ زمین پھر سے امن کی گواہ بنے گی”۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS