محبت کے نعروں پرآتش و خون

0

اتر پردیش کی فضا اس وقت جس اندوہناک کشیدگی سے گزر رہی ہے اس کی مثال شاید ہی کسی اور ریاست میں ملے۔ ’’آئی لو محمد‘‘ جیسے ایک نہایت سادہ اور ایمان افروز جملے کو جس شدّت سے جرم بنا دیا گیا ہے،وہ اس ریاستی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو آئین ہند کی بنیادی روح کے منافی ہے۔ محض ایک سائن بورڈ پر ’’ I Love Muhammad‘‘ لکھنے کو امن برباد کرنے کی سازش قرار دے کر پولیس نے ایف آئی آر درج کی، 25 نوجوانوں کو کانپور میں گرفتار کیا اور پورے اتر پردیش میں سیکڑوں کو حبس بے جا میں ڈال دیا۔بریلی میںخالی ہاتھ عوام کو لاٹھیاں کھانی پڑیں اور مولانا توقیر رضا کو گرفتار کر کے تختہ الزام پر بٹھا دیا گیا۔ یہ گرفتاری مسلمانوںکو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ مولانا توقیر رضا،جو اتحاد ملت کونسل کے سربراہ ہیں،عرصہ دراز سے پرامن جدوجہد اور عوامی نمائندگی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان پر 5تھانوں میں دس مقدمے تھوپنا،7 ایف آئی آر میں نام زد کرنا اور فرخ آباد کی سینٹرل جیل پھینک دینا سراسر انتقامی کارروائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس نے شہر کے امن و سکون پر سب سے بڑا حملہ اسی روز کیا جب اس نے ایک عالم کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پوری قوم کو ذلیل کرنے کی کوشش کی۔

اس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے لکھنؤ کے ’’ترقی یافتہ یوپی ویژن 2047‘‘ کنکلیو میں مولانا توقیر کا نام لئے بغیر طنزیہ لہجے میں کہاکہ کل ایک مولانا بھول گئے کہ ریاست میں کون اقتدار میں ہے۔ وہ شہر بند کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ ہم نے کہا کہ نہ ناکہ بندی ہوگی،نہ کرفیو،بلکہ ایسا سبق سکھائیں گے کہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔ یہ سفاک دھمکی کے لہجے میں ادا کئے گئے الفاظ ہیںجن میں اقتدار کی طاقت جھلکتی ہے اور مخالفین کو سبق سکھانے کا غرور ٹپکتا ہے۔ اسی تقریر کے دوران یوگی نے ڈینٹ اور پینٹ کا شرمناک محاورہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اپنی بری عادتیں نہیں چھوڑتے‘ انہیں ڈینٹ اور پینٹ کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی عادتیں سدھاری جا سکیں۔ غور کیجیے کہ ایک جمہوری طور پر منتخب وزیر اعلیٰ اپنے شہریوں کو گاڑی یا فرنیچر کی طرح ڈینٹ پینٹ کے قابل قرار دیتا ہے۔ یہ رویہ شہریوں کے حقوق کو کچلنے اور اپنی اکثریتی سیاست کو چمکانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اعداد و شمار خود چیخ چیخ کر حقیقت بیان کر رہے ہیںکہ صرف بریلی میں پانچ تھانوں میں دس مقدمے،125 افراد نامزد اور تین ہزار نامعلوم افراد کو مشتبہ بنا دیا گیا۔ کم از کم 22 پولیس اہلکار اور متعدد مظاہرین زخمی ہوئے۔ موبائل انٹرنیٹ 29 ستمبر تک بند کر دیا گیا۔ 8بڑے ملزمان،بشمول مولانا توقیر رضا،جیلوں میں ڈال دیئے گئے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 7 مقدمات میں مولانا کا براہ راست نام شامل کر کے ان کے خلاف دفعات کا انبار لگا دیا گیا۔ یہ اعدادوشماراس حقیقت کی گواہی ہیں کہ اختلاف رائے کو کس وحشیانہ انداز میں کچلا جا رہا ہے۔ غور کیجیے کہ اسلامیہ گرائونڈ میں نماز جمعہ کے بعد لوگ محض پوسٹر اور پلے کارڈ کے ساتھ جمع ہوئے تھے،لیکن جیسے ہی’’آئی لو محمد‘‘کا نعرہ بلند ہوا،پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے ان کا استقبال کیا۔ شیشے ٹوٹے‘دکانیں اجڑیں، معصوم زخمی ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ محبت کا دعویٰ ایک سنگین جرم بنا دیا گیا۔یوگی کے بلڈوزر کی سیاست بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔ وہ کھلے عام اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے بلڈوزر بنائے ہیں اور اس کو ہر اس گھر پر چلنے دیتے ہیں جہاں مسلمان ملزم ٹھہرایا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی سخت ہدایات کے باوجود ریاستی حکومت مسلسل اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جرائم کے ثبوت جمع ہونے سے قبل ہی ملزم کے گھر کو مٹی کر دینا انصاف کہلاتا ہے!

یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بریلی کے تشدد کے بعد صرف مولانا توقیر کو ہی سازش کار ٹھہرایا گیا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موقعہ سے پستول‘کارتوس‘بوتل اور دیگر اشیا ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے لیکن ابھی تک تحقیقات اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہجوم منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آیا تھا تو توڑ پھوڑ کے ذمہ دار صرف مولانا اور ان کے سات ساتھی کیوں ٹھہرائے گئے؟ کیوں نہیں ان تمام پس پردہ عناصر کا سراغ لگایا جاتا جن کا تذکرہ خود پولیس کرتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اتر پردیش میں قانون کا ترازو توازن کھوچکا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کوزمین جہاد اورمحبت جہاد کے کھوکھلے مفروضوں میں پھنسا دیا گیا ہے۔دوسری طرف ہندو تنظیموں کو سیاسی پروٹیکشن حاصل ہے۔ پولیس افسران کھلے عام تسلیم کرتے ہیں کہ 5تھانوں میں مقدمات‘ہزاروں نامعلوم اور ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کی جا رہی ہے۔ گویا ہر طریقے سے اس مسئلے کو ایک خوفناک عبرت کی صورت دے دی گئی ہے تاکہ کوئی دوسرا کبھی سر نہ اٹھا سکے۔ اصل سوال یہی ہے کہ کیا اس ملک میں محبت کا اظہار واقعی جرم ہے؟ اگر نہیں،تو پھر ’’آئی لو محمد‘‘کہنے پر یہ آتش و خون کیوں؟ اتر پردیش کا موجودہ منظرنامہ اس بات کا اعلان کر چکا ہے کہ عدل و مساوات کے بجائے یہاں طاقت،بلڈوزر اور اکثریتی دبائو کی حکمرانی ہے۔ آج محبت تختہ دار پر چڑھی جا رہی ہے اور تاریخ اس ناانصافی کو فراموش نہیں کرے گی۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS