محمد عباس دھالیوال
گزشتہ کچھ برسوں میں عالمی سطح پر غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشنز اور اْس کی وجہ سے پائی جانے والی انسانی مصیبتوں کی تنقید بڑھ رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کچھ ممالک نے قائم کردہ پالیسیوں میں تبدیلی کی، مثلاً برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ نے فلسطین کو ریاست کا درجہ دینے کا اعلان کیا، جو ایک جاندار سیاسی اقدام تھا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کو ان رویّوں پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، نیز اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتوں میں یہ معاملہ اکثر موضوع گفتگو رہا۔
نیتن یاہو کے لیے مختلف ممالک کے سربراہان میں کس قدر غم و غصہ پایا جا رہا ہے اس کانظارہ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب نیتن یاہو اس اجلاس میں 26 ستمبر کو اپنی تقریر کرنے کے لیے ڈائس پہ آئے تو فوراً وہاں موجود مختلف ممالک کے نمائندگان اس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلی ہال سے باہر چلے گئے۔
رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد سفارت کار اور 50 سے زائد ممالک کے نمائندے واک آؤٹ کر گئے۔
اس دوران ہال تقریباً خالی ہوگیا اور نیتن یاہو اس منظر نامے کے بیچ تقریر کرنی پڑی۔
اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ’یو این او میں نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ‘ ہوا ہے یا ہو رہا ہے، تو ہاں — ایسی اطلاعات ہیں کہ کچھ ممالک اور وفود نے اْس تقریر کا بائیکاٹ کیا ہے یا کچھ نے واک آؤٹ بھی کیا ہے۔
مثالیں اور پسِ منظر درج ذیل ہیں:
بائیکاٹ یا واک آؤٹ کی اطلاعات: جب بنیامین نیتن یاہو نے 26 ستمبر 2025 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیا، بہت سے وفود نے واک آؤٹ کیا یا وہاں سے چلے گئے، وہ بھی احتجاجاً۔
• بتایا گیا ہے کہ مسلمان اور عرب ممالک نے اس تقریر کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا، یعنی خطاب کے دوران وہ لوکیشن خالی چھوڑ دیں گے یا باہر نکل جائیں گے۔• علاوہ ازیں، رپورٹ ہے کہ ’50 سے زائد ممالک‘ کے درجنوں سفارت کاروں نے واک آؤٹ کیا۔
• حماس نے کہا کہ یہ بائیکاٹ ’اسرائیل کی تنہائی‘ کی علامت ہے۔
اگر چاہیںتو میں آپ کو ایک مفصل رپورٹ دے سکتا ہوں کہ کن ممالک نے بائیکاٹ کیا، کس پسِ منظر میں ہوا، اور اس کے سیاسی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ چاہیں گے کہ میں وہ رپورٹ فراہم کروں؟
واک آؤٹ کرنے والے ممالک میں عرب اور مسلم ممالک کا نمایاں حصہ تھا، نیز تشویش رکھنے والے بعض یوروپی ملک بھی اس عمل میں شامل ہوئے۔جبکہ اس کے بعد بہت سے ممالک، انسانی حقوق تنظیمیں، اور تجزیہ نگاروں نے نیتن یاہو کے خطاب کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ جارحیت کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صحرائی مظاہرے:نیویارک میں اسرائیلی سفارت کار کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہوئے، لوگوں نے فلسطینیوں پر ہورہے ظلم کے خلاف سڑکوں پر آئے۔ سفارتی تنہائی کا اشارہ: واک آؤٹ نے یہ پیغام دیا کہ اسرائیل عالمی سطح پر بڑھتی تنہائی کا شکار ہے۔ بہت سے ممالک اس تقریر میں شرکت سے گریز کر کے اپنی ناپسندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ہیگ گروپ‘ ( Hague Group) نامی ممالک نے اسرائیل کے خلاف مختلف اقدامات کی بات کی، جیسے اس پر پابندیاں لگانا، ہتھیاروں کی ترسیل روکنا، وغیرہ۔ فلسطینی مندوب نے بھی بین الاقومی عدالتوں اور تنظیموں کو اقدامات اٹھانے کی اپیل کی۔ اس سے قبل غیر ملکی میڈیا کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کریں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے خطاب کے دوران مسلم ممالک کے مندوبین اسمبلی ہال سے اٹھ کر باہر چلے جائیں گے۔واضح رہے کہ نیتن یاہو نے حال ہی میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبے کا ذکر کیا تھا جسے مسلم ممالک کے رہنماؤں نے عرب دنیا کی سلامتی اور خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا تھا۔
Abbasdhaliwal72@gmail.com