پرچہ لیک کا سیاسی کھیل اور نوجوانوں کا مستقبل

0

اتراکھنڈ کے تازہ پرچہ لیک نے ایک بار پھر برہنہ کر دیا ہے کہ بی جے پی حکومت کے دور میں پرچہ لیک،بددیانتی اور دھوکہ دہی معمول بنتی جا رہی ہے۔ یو کے ایس ایس ایس سی کے گریجویٹ سطح کے امتحان میں محض ایک دن بعد سوالیہ پرچہ کے تین صفحات آن لائن وائرل ہوگئے یہ پورے نظام پر بدنما داغ ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے واقعے کو مذہبی منافرت کے زہر میں لتھڑ کر پیش کر رہی ہے۔ طلبا کے نعروں نے اصل درد واضح کر دیا، پہلے ’’ووٹ چور گدی چھوڑو‘‘ اور اب ’’پرچہ لیک گدی چھوڑو‘‘۔ یہ نعرے نوجوانوں کی مایوسی،غصہ اور ریاستی انتظامیہ سے بڑھتی بیگانگی کا عکاس ہیں۔

امتحان اتوار کو صبح 11 بجے سے دوپہر 1 بجے تک منعقد ہوا۔ 432 امیدواروں میں سے 292 نے شرکت کی اور ایک دن بعد تین صفحات پر مشتمل سوالیہ پرچہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا۔ پورے خطے میں سیکڑوں نوجوان دہرادون کے پریڈ گرائونڈ میں جمع ہوگئے،بینرز اٹھائے اور حکومت سے جواب طلب کیا۔ حکومت نے 2024 میں نافذ ’’عوامی امتحانات ایکٹ‘‘ جیسے اقدامات ضرورکیے جن میں پرچہ لیک پر تین سے پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ تجویز ہے،مگر قانون کی سخت شقیں جب انتظامی عدم توجہی اور نفاذ کی کمزوری سے جڑی ہوں تو یہ محض کاغذی کارروائی بن کر رہ جاتی ہیں۔

پولیس نے معاملے کو دو افراد تک محدود کرنے کی کوشش کی یعنی خالد ملک اور اس کی بہن صبیحہ۔ الزام ہے کہ خالد نے امتحان ہال سے تصاویر بھیجیں اور صبیحہ نے انہیں آگے منتقل کیا۔ مگر یہ واقعہ دو افراد کا نہیں،ایک منظم نیٹ ورک اور انتظامی کوتاہی کا نتیجہ لگتا ہے۔ امتحان سے ایک دن پہلے پنکج گوڑ اور حکم سنگھ کو گرفتار کیا گیا،جن پر امیدواروں سے 12 سے 15 لاکھ روپے لے کر کامیابی کا وعدہ کرنے کے الزامات ہیں۔ حکم سنگھ پر 2021 کے ایک اور پرچہ لیک کیس کے الزامات بھی ہیں۔ جب بارہا ایک ہی نوعیت کے کردار سامنے آتے ہیںتو کس منہ سے حکومتی نعروں کو سنجیدہ لیا جائے؟

سب سے زیادہ خطرناک اور اخلاقی طور پر ناقابل قبول رویہ وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کا ہے جنہوں نے اس سنگین تعلیمی جرم کو ’’نقل جہاد‘‘ جیسی تعبیرات میں بدل کر فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی۔ اگر ملزم کسی اور مذہب کا ہوتاتو کیا یہی بیانیہ اختیار کیا جاتا؟ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جس کالج میں معاملہ پیش آیا، اس کے پرنسپل دھرمیندر چوہان خود بی جے پی کے ہریدوار میڈیا انچارج ہیں۔ ان کے مطابق 18 امتحانی ہالز میں سے تین ہالز میں جیمرز موجود نہ تھے اور خالد ان ہی ہالز میں سے ایک ہال میں تھا۔ کیا یہ انتظامی غفلت نہیں؟ یا پھر محض کچھ کرداروں کو بدنام کر کے اصل ذمہ داری سے آنکھ چرائی جا رہی ہے؟

یہ واقعہ منفرد نہیں۔ NEET،UGC-NET،بہار PSC،ویاپم اور متعدد مقابلہ جاتی امتحانات میں پرچہ لیک کے الزامات سامنے آچکے ہیں۔ ہر بار شور،پکڑ دھکڑ اور وعدے کیے جاتے ہیں مگر نظامی خلا ویسے کے ویسے برقرار رہتے ہیں اور مافیا کا اپنا کام چلتا رہتا ہے۔ ایک طرف حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک بھر سے بدعنوانی اور دہشت گردی کا صفایا کریں گے،دوسری طرف امتحانی مافیا نوجوانوں کا مستقبل ان کے سامنے چھین لیتے ہیں،یہ تضاد قابل مذمت ہے۔

کانگریس کے لیڈران نے درست نشاندہی کی ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے فرقہ واریت کا آسان راستہ اپناتی ہے۔ اتراکھنڈ جیسا خطہ،جو روزگار،تعلیم اور صحت کے مسائل سے دوچار ہے،آج اسی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بے روزگاری، ہجرت اور مایوسی کا شکار ہے۔ ہزاروں کنٹریکٹ ورکر طویل انتظار میں ہیں، جب بھرتیاں ہوتی ہیں تو سوالیہ پرچے بازار میں فروخت ہونے لگتے ہیں، یہ صورت حال پرسوز ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ چند گرفتاریاں ہی کافی نہیں۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو ضرورت ہے کہ آزاد،مرکزی سطح کی سی بی آئی طرز کی انکوائری کرائے جو پورے نیٹ ورک،کوچنگ اسکیموںاور انتظامی غفلت کی جڑوں تک پہنچے نیز امتحانی مراکز میں مکمل اور مساوی طور پر جیمنگ آلات کی تنصیب اور قانون کا مؤثر نفاذہو جس میں صرف کاغذات پر سزا نہیں بلکہ احتساب اور شفافیت بھی شامل ہو۔ بصورت دیگر یہ مظاہرہ محض ایک احتجاجی لہر تک محدود نہیں رہے گا یہ نسلِ نوجوان کی بے یقینی اور غصے کا سیاسی اظہار بن کر آئندہ انتخابات میں موزوں بدلہ بن سکتا ہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS