ڈاکٹر جاوید عالم خان
حالیہ دنوں میں سی اے جی (Comptroller and Auditor General of India)کے ذریعے صوبائی حکومتوں کے مالی حالات پر ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے، اس رپورٹ سے یہ پتا چلتا ہے کہ مالی سال 2013-14 اور 2022-23کے دوران صوبائی حکومتوں کے عوامی قرضوں میں3.39گنا اضافہ ہوگیا ہے اور یہ عوامی یا سرکاری قرض 58.18 لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 59.6لاکھ کروڑ ہوگیا ہے۔ مزید عوامی قرض2013-14 اور 2022-23 کے درمیان جی ایس ڈی پی(State Gross Domestic Product)کی شرح میں 16.6 فیصد سے بڑھ کر 22.9 فیصد ہوگیا ہے۔ جی ایس ڈی پی ایک مالی سال کے دوران صوبوں کے اندر تمام مکمل اشیاء اور خدمات کی قدر کا پیسہ میں تخمینہ کرتا ہے۔
موجودہ وقت میں ہندوستان میں تمام صوبائی حکومتیں مجموعی سرکاری آمدنی کا ایک تہائی حصہ تمام ذرائع سے اکٹھا کرتی ہیں جبکہ مجموعی اخراجات میں ان کا حصہ60فیصد ہے اور مجموعی عوامی قرض میں ان کا حصہ40فیصد ہے، یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتوں پر عوامی قرضہ جات کا یہ بوجھ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ صوبائی حکومتیں مختلف ذرائع سے اپنی آمدنی اکٹھا کرتی ہیں، ان میں مرکزی حکومت کی طرف سے جمع کیے گئے محصولات میں حصہ، مرکزی حکومت کے ذریعے چلائی جارہی اسکیموں اور اداروں کے ذریعے امداد اور مرکزی حکومت کے ذریعے دیا جانے والا قرض جس میں کئی طرح کے قرضہ جات شامل ہیں، مختلف قرضہ جات میں مارکیٹ لون، بانڈس، مالیاتی اداروں کے ذریعے دیا گیا لون، قومی بچت فنڈ کے ذریعے جاری کی گئی سیکورٹی، آر بی آئی(Reserve Bank of India)کے ذریعے دیا گیا ایڈوانس بھی شامل ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنے ذرائع سے زیادہ آمدنی جمع نہیں کرپاتی ہیں۔ جی ایس ٹی(Goods and Services Tax)کے آنے کے بعد صوبائی حکومتوں کے ذریعے آمدنی اکٹھا کرنے کے اختیارات بھی کافی محدود ہوگئے ہیں، سی اے جی کی حالیہ رپورٹ سے یہ پتا چلتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ کے معاملے میں پنجاب، ناگالینڈ اور مغربی بنگال سب سے آگے ہیں۔ 2023میں جی ایس ڈی پی کی شرح میں پنجاب کا قرض 40فیصد ہے، وہیں ناگالینڈ کا37فیصد ہے اور مغربی بنگال کا 33فیصد ہے۔
عوامی قرضوں کے معاملے میں اوڈیشہ کے ذریعے لیا گیا قرض جی ڈی پی کی شرح میں5.45فیصد ہے، وہیں مہاراشٹر کا14.6فیصد اور گجرات کا 16.3فیصد ہے۔ 28صوبائی حکومتوں کے عوامی قرضوں کے تجزیہ سے سے یہ پتا چلتا ہے کہ8صوبائی حکومتوں کے ذریعے جی ایس ڈی پی کی شرح میں لیا گیا قرض30فیصد سے زیادہ ہے، وہیں پر6صوبائی حکومتوں کے ذریعے لیا گیا عوامی قرض20 فیصد سے کم ہے۔ 14صوبے ایسے ہیں جن کے ذریعے لیا گیا عوامی قرض20سے30فیصد کے درمیان ہے۔سی اے جی تجزیہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کی مجموعی روزمرہ کی آمدنی(Revenue Receipts) میں عوامی قرضوں کی شرح 2014-15 میںکم تھی جو2020-21میںبڑھ گئی۔ اوسطاً صوبائی حکومتوں کے ذریعے لیا گیا قرض صوبائی حکومتوں کی مجموعی آمدنی کا تقریباً 150فیصد ہے اور جی ایس ڈی پی کی شرح میں تمام صوبائی حکومتوں کیلئے اوسط عوامی قرض 17 سے 25فیصد ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ موجودہ وقت میں صوبائی حکومتوں کے ذریعے بڑھتے ہوئے قرض کی وجوہات کیا ہیں۔ حالیہ دنوں میں صوبائی حکومتوں کے انتخابی منشور کے تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کو جیتنے کیلئے عوام کے سامنے لبھاؤنے وعدے کرتی رہی ہیں جس سے کہ انتخابات کو آسانی سے جیتا جاسکے، ان انتخابی وعدوں میں بجلی کے بل میں چھوٹ، کسانوں کے ذریعے لیے گئے قرضوں کی معافی، عورتوں کیلئے نقد ٹرانسفر کی اسکیم، پرانے پنشن کی اسکیم کی بحالی اور مختلف صوبوں میں بیواؤں، معذوروں اور بزرگوں کی پنشن اسکیم کے بجٹ میں اضافہ وغیرہ ۔ کورونا وبا کے دوران صوبائی حکومتوں کے قرضہ جات میں جی ایس ڈی پی کی شرح میں عوامی قرض21فیصد سے بڑھ کر25فیصد ہوگیا ہے اور اس اضافی قرضوں کی بھرپائی صوبائی حکومتیں ابھی تک نہیں کرسکی ہیں۔ تجزیہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کئی صوبائی حکومتیں روزمرہ کے اخراجات پر خرچ کررہی ہیں جبکہ ان قرضوں کا استعمال لمبے وقت یا طویل مدت کے پروجیکٹ پر سرمایہ کاری کیلئے کیا جانا تھا۔ اس وقت ملک کے 11صوبے ایسے ہیں جن میں عوامی قرضوں کو تنخواہوں، پنشن اور سبسڈی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ یہ پیسے سرمایہ جاتی اخراجات یا انفرااسٹرکچر کیلئے استعمال کیے جانے چاہیے تھے۔ ان صوبائی حکومتوں میں پنجاب، تمل ناڈو اور آندھراپردیش قابل ذکر ہیں۔
صوبائی حکومتوں کے ذریعے لیے گئے قرضوں کے معاشی میدان میں منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے جیسے کہ صوبائی حکومتوں کے ذریعے لیے گئے قرضوں کی وجہ سے شرح سود پر ایک دباؤ پیدا ہوگا اور پرائیویٹ کمپنیوں یا سیکٹر کیلئے قرض لینے کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت کے ذریعے لیے گئے قرضوں کو سبسڈی پر خرچ کرنا یا افراط زر کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتوں کے ذریعے کیے گئے ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی آسکتی ہے کیونکہ زیادہ قرض لینے کی وجہ سے سود کی ادائیگی کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔ موجودہ وقت میں صوبائی حکومتوں کے مجموعی بجٹ کا تقریباً ایک چوتھائی بجٹ سود کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید مرکزی حکومت کے خود کے عوامی قرضوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے 2024 میں جی ڈی پی کی شرح میں عوامی قرض57فیصد تھا جوکہ صوبائی حکومتوں کے ذریعے قرض لینے کی وجہ سے بڑھ کر80فیصد ہوگیا ہے، حالانکہ مرکزی حکومت کو اپنا عوامی قرض جی ڈی پی کی شرح میں60فیصد تک محدود رکھنا چاہیے۔
مرکزی حکومت نے عوامی اخراجات یا بجٹ کے بہتر استعمال، عوامی قرضوں میں تخفیف اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے 2003 میں ایک قانون بنایا تھا، اس قانون کو ایف آر بی ایم ایکٹ (Fiscal Responsibility and Budget Management Act, 2023) کے نام سے جاتا ہے۔
اس قانون کے مطابق مرکزی حکومت کو روزمرہ اخراجات سے متعلق مجموعی خسارے(Revenue Deficit)کو صفر کرنا چاہیے اور مالیاتی گھاٹا(Fiscal Deficit) مجموعی بجٹ میں جی ڈی پی کی شرح میں3فیصد ہونا چاہیے۔ مالی سال2025-26میں مرکزی حکومت کا مالیاتی گھاٹا جی ڈی پی کی شرح میں4.5فیصد رکھا گیا ہے جبکہ یہ گھاٹا 2024-25 میں 4.8 فیصد تھا، اسی طرح سے مرکزی حکومت کا روزمرہ اخراجات سے متعلق گھاٹا 1.5 فیصد رکھا گیا ہے۔ ایف آر بی ایم ایکٹ کا اصل مقصد یہ ہے کہ ملک کے اندر اقتصادی استحکام کو فروغ دیا جائے اور ملک کے اندر اقتصادی غیر یقینی حالات کو اس قانون کے ذریعے بہتر کیا جائے۔
ایف آر بی ایم قانون کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ وہ روزمرہ کے اخراجات سے متعلق خسارے کو جی ایس ڈی پی کی شرح میں صفر کریں اور مالیاتی خسارے کو3فیصد تک محدود کریں۔ تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ روزمرہ کے اخراجات سے متعلق خسارے کو صفر کرنے کی وجہ سے سماجی شعبے کی خدمات جیسے تعلیم اور صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس کا سیدھا اثر تعلیم اور صحت کے شعبے میں انسانی وسائل اور اسٹاف جیسے اساتذہ اور ڈاکٹر کی دستیابی میں کمی دیکھنے کو ملی ہے اور بہت سارے شعبوں میں سرکاری اسامیاں خالی پڑی ہیں اور ان کو پر نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم کے میدان میں معیاری خدمات کو مکمل طور پر مہیا نہیں کرایا جاسکا ہے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
jawedalamk@gmail.com