عبدالماجد نظامی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان دنوں دنیا کے لیڈران اکٹھے ہو کر اپنی اپنی باری سے اپنا خطاب پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایک روایت ہے جس کا اعادہ ہر سال ہوتا ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ کی حیثیت ایک عالمی پنچایت گھر کی ہے جس کے وجود کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جب کبھی بھی دو یا دو سے زیادہ ملکوں کے درمیان تنازع کی کیفیت پیدا ہو تو اس کو حل کرنے کے لیے جنگ کے بجائے بات چیت اور پرامن وسائل کا استعمال کیا جائے۔ دوسری عالمی جنگ کی بے تحاشہ تباہیوں نے عالمی برادری کو اس بات کا احساس شدت سے کروایا تھا کہ تنازعات کے حل کے لیے پر امن راستہ اختیار کرنا سب کے حق میں ہوگا۔ بہت سے مواقع پر اقوام متحدہ نے اس محاذ پر اپنا یہ کردار بخوبی انجام دیا بھی ہے۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ نے اس بار کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر میں اقوام متحدہ کی ناکامیوں اور اپنی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ بطور امریکی صدر دنیا کی سات بڑی جنگوں کو روک چکے ہیں۔ ان جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ہند و پاک کے مابین ’آپریشن سندور‘ کے نام سے چلنے والی جنگ کو رکوانے کا ذکر بھی بطور خاص کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان جنگوں کو بند کروانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جبکہ امریکی صدر کی حیثیت سے ان جنگوں کو بند کروانے میں وہ پورے طور پر کامیاب رہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے یہ دعوے کتنے مبنی بر حقیقت ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جن جنگوں کا ذکر کیا، ان میں سے بیشتر جنگوں کا وجود تک نہیں ہے۔
البتہ جن جنگوں میں انسانی زندگیاں مسلسل تباہ ہو رہی ہیں، ان میں روس و یوکرین جنگ کے علاوہ سوڈان کی جنگیں ہیں جن کو بند کروانے میں نہ صرف امریکی صدر اب تک ناکام رہے ہیں بلکہ نہایت بے بس بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان تمام جنگوں سے بڑھ کر غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں شب و روز قتل کا بازار گرم ہے اور اس کو جنگ کا نام دینے کے بجائے امریکی حمایت میں کی جانے والی نسل کشی سے تعبیر کرنا زیادہ اہم ہوگا۔ جنگ بندی کی کوششوں میں اقوام متحدہ کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ بتاتے کہ اسی اقوام متحدہ میں غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے کے لیے جتنی بار کوششیں ہوئی ہیں، ان کو تن تنہا امریکہ نے اپنی ویٹو پاور کے بے جا استعمال سے ناکام بنایا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے جنگ بندیوں کے سلسلہ میں اپنی کامیابیوں پر خود کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان جنگوں کو روکنے کی وجہ سے کتنی ہی انسانی زندگیاں تباہ ہونے سے بچ گئیں۔ یقینا جنگیں تباہ کاریوں کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہیں اور ان کو بند ہونا ہی چاہیے تاکہ معصوم لوگ اس کی بھٹی میں جل کر کربناک ڈھنگ سے اپنا وجود ختم کرنے پر مجبور نہ ہوں لیکن ڈونالڈ ٹرمپ یہ بتانا بھول گئے یا جان بوجھ کر انہوں نے اس امریکی جرم کو چالاکی سے چھپا لیا کہ ان کے ذریعہ بھیجے گئے مہلک ترین ہتھیاروں سے آج بھی معصوم فلسطینیوں کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کو بے روک ٹوک امریکی مدد کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی زندگیاں بھوک و پیاس کی شدت سے دم توڑ رہی ہیں۔ اسپتالوں، عبادت گاہوں اور تعلیمی مراکز سے لے کر خیموں تک میں پناہ لینے والوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔
اس کے باوجود امریکی صدر کے ضمیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں تمام اراکین جب غزہ میں جاری اس وحشیانہ نسل کشی کو روکنے کی تائید میں اپنے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اس موقع پر بھی واحد امریکی ہاتھ ایسا ہوتا ہے جو اس بربریت کو مزید غیر محدود مدت تک جاری رکھے جانے کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔ پوری عالمی برادری امریکہ کی اس قساوت قلبی اور اخلاقی دیوالیہ پن پر انگشت بدنداں رہ جاتی ہے کہ آخر اس واحد سپر پاور کا ضمیر اس قدر افلاس کا شکار کیسے ہوگیا۔ اس کے باوجود امریکی صدر اگر جنگوں کو روکنے اور امن کی بہار پیدا کرنے کے لیے اپنی تعریف کرتے ہیں تو اس کو صرف ان کی دریدہ دہنی ہی سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو طاقت کے نشہ میں چور واحد عالمی قوت کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
دراصل جنگوں کو روکنے میں صرف اقوام متحدہ کی ناکامیوں کا ذکر کرنا پورا سچ نہیں ہے۔ اس کی سچائی تب مکمل عیاں ہوگی جب امریکی صدر یہ بتائیں کہ اقوام متحدہ کو ناکام بنانے کے لیے خود امریکہ نے کتنی بار اس کے پاؤں میں موٹی اور بھاری بھرکم زنجیریں ڈالی ہیں۔ امریکی صدر کو چاہیے تھا کہ وہ اس تاریخ کو بھی بیان کریں کہ2003 میں عراق پر حملے کی مخالفت اقوام متحدہ نے کی تھی، لیکن اس کے باوجود اس پر حملہ کرنے کے لیے امریکہ اپنے ناٹو حلیفوں کے ساتھ چل پڑا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ جس جنون کا شکار ہوا تھا، اس کی پاداش میں اس نے کسی عالمی قانون کی پروا تک نہیں کی تھی اور پوری دنیا کو دو خانوں میں تقسیم کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جو امریکہ کے ساتھ نہیں ہے، وہ اس کا دشمن ہے۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نعرہ دے کر افغانستان جیسے کمزور و مفلوک الحال ملک پر حملہ کر دیا گیا تھا۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ عراق و افغانستان میں تباہ ہوئے اور امریکی سپاہی بدترین جرائم کے مرتکب پائے گئے۔ اس کے باوجود وہ نہ تو عراق کے عوام کو توڑ پائے اور نہ ہی افغانستان کو گھٹنوں پر لا سکے۔ دونوں ہی ملکوں میں ہر طرف تباہی پھیلانے کے بعد آخر کار ان ملکوں کے لوگوں کی قوت مزاحمت کے سامنے امریکہ اور اس کے حلیفوں کو سرنگوں ہونا پڑا۔ اس کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ اسی افغانستان کے بگرام ایئر بیس کو اپنے قبضہ میں لینے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ سچائی صرف یہ ہے کہ امریکہ کو جنگوں کے روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جنگیں تبھی رکتی ہیں جب اس کے مفادات پورے ہوجاتے ہیں یا ان جنگوں سے فائدے کے بجائے نقصانات کی صورتیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔
اقوام متحدہ اگر آج اپنا کام مناسب انداز میں نہیں کر پا رہا ہے تو اس کے لیے امریکہ ہی ذمہ دار ہے جس نے اس کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ صحیح معنی میں پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اس کو صرف اپنے جائز و ناجائز مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ پر ڈونالڈ ٹرمپ کی تنقیدوں نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ اس عالمی پنچایتی گھر کی تشکیل نو ضروری ہے۔ اقوام متحدہ میں بڑے پیمانہ پر اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ اس کو اس قابل بنانا بے حد ضروری ہے کہ مستقبل میں کوئی سپر پاور اسے اس طرح یرغمال نہ بنا سکے جیسا کہ آج امریکہ نے اقوام متحدہ کو بنا رکھا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com