’ایچ-1 بی‘ ویزا اور ’کے‘ ویزا

0

ڈونالڈٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں اور صدر کوئی یوں ہی نہیں بن جاتا۔ اس میں اپنے ملک کے لوگوں کے مزاج کو سمجھنے یا اپنی باتوں کو سمجھانے کی اہلیت ہوتی ہے تبھی وہ انتخاب جیتتا ہے۔ بحث کا یہ الگ موضوع ہے کہ عوام سے خطاب کرتے وقت کون لیڈر ملک کے مفاد کا خیال پوری طرح کرتا ہے اور کون ظاہری طور پر ہی ملک کے مفاد کا خیال کرتا ہے، ورنہ اس کے لیے اہمیت اپنے ذاتی مفاد کی ہی ہوتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ یعنی ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں‘ کے نعرے کے ساتھ صدر بنے۔ ان کے اس نعرے کے حامی بڑی تعداد میں ہیں۔ انہیں ماگا (MAGA) حامی کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے ٹرمپ کا ہر فیصلہ اہم ہوتا ہے۔ غالباً اسی لیے ٹرمپ سے وہ یہ سوال کبھی بڑی شدت سے نہیں پوچھ سکے کہ امریکہ کیوں عظیم نہیں رہا کہ پھر سے اسے آپ عظیم بنانا چاہتے ہیں؟ آخر امریکہ کی جگہ کون عظیم بن گیا ہے؟ ممکن ہے، ماگا حامیوں کی سمجھ میں ٹرمپ کا نعرہ ’میک امریکہ گریٹ اگین‘بڑی اچھی طرح آ گیا ہو، ان کا ہر فیصلہ ان کی سمجھ میں آجاتا ہو، اسی لیے وہ اس سلسلے میں ٹرمپ سے کوئی سوال نہیں کرتے مگر صدر امریکہ، ڈونالڈ ٹرمپ کا ہر فیصلہ قابل فہم نہیں۔ ان کے کئی فیصلوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ ان کے فیصلوں کی روشنی میں یہ سمجھنا زیادہ مشکل ہے کہ امریکہ کس ملک کو دوست مانتا ہے اور کس کو حریف یا دشمن۔ کس ملک سے اس کی مقابلہ آرائی ہے اور کس ملک کا امریکی صدر کے فیصلوں کی وجہ سے بالواسطہ طور پر بھلا ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے پہلی مدت صدارت میں چین کے خلاف ٹریڈ وار چھیڑی تھی۔ ان سے یہ توقع تھی کہ ٹیرف کے نفاذ کے وقت وہ دوست اور حریف یا دشمن میں فرق کریں گے لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سلسلے میں ان کی طرف سے کیا فیصلے لیے گئے۔ اس کے بعد بھی جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس سے امریکہ کے دوست ملک کو بھلے ہی کچھ نقصان ہو، خود امریکہ کو بھی نقصان ہوگا اور فائدے میں چین رہے گا۔ ایسا ہی معاملہ ایچ-1 بی ویزا کا ہے۔ اس سے ان ہندوستانیوں کو نقصان ہوگا جو امریکہ میں جاکر اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ کو جو نقصان ہوگا، اس کا اندازہ صدر امریکہ کو نہیں ہے یا ممکن ہے، اس سلسلے میں ان کا کچھ ایسا منصوبہ ہو جو ان کی ٹیم کے سوا پوری دنیا کی سمجھ سے بالاتر ہو مگر شی جن پنگ کے چین نے کے ویزا متعارف کرکے کچھ اشارہ دیا ہے تو اسے بھی سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ امریکہ کے بعد چین ہی دنیا کی دوسری بڑی اقتصادیات ہے اور وہ امریکہ کی جگہ لے لینا چاہتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 19 ستمبر، 2025 کو ایچ-1 بی ویزا کی فیس 100,000 ڈالر یعنی تقریباً 8,800,000 روپے کر دی۔ یہ اعلان بھی ہو گیا کہ نئی فیس 21ستمبر، 2025 سے نافذ ہوگی۔ اس سے ہلچل مچی، کمپنیوں نے 21 ستمبرتک ایچ-1 بی ویزا والے اپنے ملازمین کو امریکہ آجانے کے لیے کہا، کیونکہ یہ بات واضح نہیں تھی کہ نئی فیس کس طرح نافذ کی جائے گی لیکن ٹرمپ حکومت کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ ایچ-1 بی ویزا کے لیے 100,000 ڈالرکی فیس 3 سال میں ایک ہی بار دینی ہوگی اور یہ نئے ملازمین کے لیے ہوگی۔ اس سے کچھ راحت ایچ-1 بی ویزا والوں کو ملی لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے خواب کا کیا ہوگا جو امریکہ جاکر ہی تعبیر حاصل کرنا چاہتے ہیں، اپنے ہی ملک میں رہ کر اپنی صلاحیتوںسے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا نہیں چاہتے؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ ٹرمپ نے ایچ-1 بی ویزا کی نئی فیس نافذ کرتے وقت یہ خیال نہیں کیا ہے کہ اگر اقتصادی طور پر مستحکم ملک اپنے ہی لوگوں کے دم پر دنیا کا سپر پاور بن جاتا تو پھر ایک نہیں، کئی امریکہ ہوتے۔ پیسے کی کمی مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے پاس بھی نہیں تھی لیکن بیرونی ممالک کے لوگوں کو مدعو کرنے اور انہیں شہریت دینے کی جو پالیسی امریکہ کے پاس تھی، ان کے پاس نہیں تھی، اس لیے دنیا کے بہترین دماغ کے لوگوں نے امریکہ کا رخ کیا اور امریکہ کی وہ پوزیشن بنا دی جو کسی اور ملک کی نہیں ہے۔ چینی سربراہ شی جن پنگ کو یہ احساس ہے۔ اسی لیے بلاتاخیر چین نے کے ویزا متعارف کرا دیا ہے۔ اس ویزا سے چین سائنس اور ٹیکنالوجی کے ان ماہرین کو راغب کرنا چاہتا ہے جو اسے امریکہ کی جگہ دلانے میں معاون بنیں لیکن چین کا زیادہ طاقتور ہونا نہ امریکہ کے لیے ٹھیک ہے اور نہ ہی وطن عزیز ہندوستان کے لیے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS