عبیداللّٰہ ناصر
قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب حکمرانوں کو شاید احساس ہو گیا کہ وہ چاہے جتنی امریکہ پرستی کرلیں مگر امریکہ کبھی ان کا سگا نہیں ہوگا۔ خلیج علاقہ میں قطر ہی وہ واحد ملک ہے جہاں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی مستقر ہے۔ جہاں ایک اندازہ کے مطابق دس ہزار امریکی فوجی جدید ترین جنگی ساز و سامان سے لیس تعینات رہتے ہیں۔ امریکہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نے اسے اطلاع دیے بغیر قطر پر حملہ کیا تھا مگر ایک بچہ بھی اس پر اعتماد نہیں کرے گا۔ یاد دلا دیں کہ قطر امریکہ کا بہت وفادار دوست اور حلیف رہا ہے یہاں تک کہ جب سعودی عرب اور ترکیہ نے عراق پر حملہ کرنے کے لیے اپنے امریکی فوجی اڈوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی تب قطر نے بدترین برادر کشی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اڈوں سے عراق پر حملہ کرنے کی منظوری دے کر دس لاکھ سے زیادہ عراقی بچوں، بوڑھوں، عورتوں کو موت کی نیند سلوا دیا تھا۔ایسے وفادار دوست اور حلیف پر جب اسرائیل نے حملہ کیا تو امریکہ خاموش تماشائی بنا رہا اور مذمتی بیان جاری کر کے حق دوستی ادا کر دیا۔ لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ امریکہ پرست عرب حکمرانوں کو بھی احساس ہوگیا کہ امریکہ ان کا خیر خواہ نہیں ہے اور اب اپنے دفاع کے لیے انہیں دوسرے دروازے بھی دیکھنے ہوں گے۔اس سلسلہ میں پہلا قدم سعودی عرب نے اٹھاتے ہوئے پاکستان سے دفاعی معاہدہ کر لیا ہے جس کی رو سے کسی ایک فریق پر ہوا حملہ دوسرے فریق پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا، لب لباب یہ کہ سعودی عرب کی دولت اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اب ایک دوسرے کے کام آئے گی۔ یہ سمجھوتہ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ بر صغیر میں بھی طاقت کا توازن بگاڑے گا کیونکہ ہندوستان اور اسرائیل میں پہلے سے ہی غیر اعلان شدہ دفاعی تعاون چل رہا ہے، کہا جاتا ہے کہ کارگل کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ہندوستان کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا تھا اور ابھی غزہ میں چل رہی اسرائیل کی فوجی کارروائی میں ہندوستان نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کو تعاون دیا ہے۔
اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب کے ما بین یہ دفاعی معاہدہ بھلے ہی اب باقاعدہ ہوا ہو لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط دفاعی ساجھیداری کا ہی نیا چہرہ ہے۔ معاہدہ پر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے جدہ میں دستخط کیے، ان کے ساتھ پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے اصل سربراہ فیلڈ مارشل منیر ہی ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ایک علانیہ کے مطابق یہ سمجھوتہ دونوں ملکوں کی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ اور دنیا نیز اس خطہ میں امن اور استحکام قائم کرنے اور مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا سدباب کرنے کی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کی دھوکہ بازی اور اسرائیل کی بڑھتی جارحیت کے خلاف یہ سمجھوتہ ہے جو کسی عرب ملک نے کسی نیو کلیائی صلاحیت والے ملک سے کیا ہے۔ ہندوستان کے ’آپریشن سندور‘ کے بعد پاکستا ن کو بھی ایسے ایک دولت مند ساتھی کی ضرورت تھی جو بربا د ہو چکی اس کی معیشت میں اسے زیادہ سے ز یادہ مسلح ہو نے اور جدید ترین اسلحہ حاصل کرنے میں معاشی مدد کر سکے۔ ویسے بھی عرب ملکوں میں پاکستانی فوج عرصہ دراز سے موجود ہے، 60کی دہائی میں جب یمن کے مسئلہ پر مصر اور سعودی عرب میں ٹھنی ہوئی تھی تو سعودی عرب کی مدد کے لیے پاکستانی فوج پہنچ گئی تھی۔ 1979میں حرم شریف پر جب انتہا پسندوں نے قبضہ کر لیا تھا تو پاکستانی فوج نے ہی حرم شریف کو ان کے قبضہ سے آزاد کرایا تھا۔
پاکستانی فوج کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون ناحق سے بھی رنگے ہوئے ہیں۔ 70 کی دہا ئی میں جب اردن کے شاہ حسین نے اپنے یہاں سے فلسطینی پناہ گزینوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا تھا تو اردن میں تعینات پاکستانی فوجی اتاشی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی قیادت میں پاکستانی فوج نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر کے انہیں تیونیشیا میں پناہ لینے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ یہی ضیاء الحق بعد میں پاکستانی فوج کا سربراہ اور پھر غداری کر کے وہاں کا صدر مملکت بن گیا تھا۔1982میں بھی دونوں ملکوں میں ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کی رو سے پاکستان سعودی عرب کے فوجیوں خاص کر ایئر فورس کے جوانوں کو تربیت دیتا ہے، انہیں دفاعی معاملات میں مشورہ بھی دیتا ہے۔سعودی عرب پاکستان میں بنے اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔یہی نہیں جب پاکستان نے ہندوستان کے دوسرے ایٹمی دھماکہ کے بعد خود ایٹمی دھماکہ کیا اور اس پر ہندوستان کی طرح ہی معاشی پابندی لگی تو سعودی عرب سے اسے بھرپور معاشی مدد ملی جس کے سہارے وہ اپنا نیو کلیائی پروگرام جاری رکھ سکا تھا۔
ایک بات تو طے ہے کہ اس معاہدہ سے پاکستان کی بلے بلے ہوگئی ہے۔ سوچئے چین کا اسلحہ، سعودی عرب کی دولت اور پاکستان کے سپاہی خطہ میں امریکہ کے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں۔ اس سمجھوتہ نے پاکستان کو صرف معاشی اور دفاعی فائدہ ہی نہیں پہنچایا ہے، ایشیا اور افریقہ میں اسے کلیدی کردار بھی دے دیا ہے جو اب تک اس کے پاس نہیں تھا بلکہ سرد جنگ کے زمانہ میں یہ حیثیت ہندوستان کو حاصل تھی۔سعودی عرب کے بعد عرب اور خلیج کے کئی دوسرے ملک بھی پاکستان سے ایسا ہی سمجھوتہ کر سکتے ہیں کیونکہ قطر پر اسرائیل کے حملے سے امریکہ پر ان کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ پیسے کی فراوانی سے پاکستان خود اپنی دفاعی صنعت کو تو مضبوط کرے گا جس سے وہاں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور اس کی معیشت کو رفتار ملے گی۔ وہ اب چین، روس اور جہاں سے بھی ہو سکے گا، زیادہ سے زیادہ اسلحہ خریدے گا، یہاں تک کہ امریکہ بھی تجارتی مفاد اسی میں دیکھے گا اور پاکستان کے ہاتھوں اسلحہ فروحت کرنے میں تذبذب نہیں کرے گا۔ ویسے بھی صدر ٹرمپ کا اب تک کا رویہ اور پالیسیاں ہندوستان مخالف اور پاکستان کے مفاد میں رہی ہیں۔ چابہار بندرگاہ سے ہندوستان کی بے دخلی زبردست، ٹیرف کا بوجھ اور ایچ-1 بی ویزا کی فیس بڑھا کر ٹرمپ نے ہندوستان کے سلسلہ میں اپنا موقف صاف کر دیا ہے۔
یہ حالات ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں، اگر مودی حکومت ہندوتو کے اپنے ایجنڈے کے مطابق اس سمجھو تے کے بعد اسرائیل سے درپردہ دفاعی اشتراک کو علانیہ دفاعی معاہدہ میں تبدیل کرتی ہے جیسا کہ کچھ حلقوں سے اشارہ دیا جا رہا ہے تو یہ عرب اور مسلم ملکوں سے اس کے تعلقات میں لازمی طور سے کشیدگی پیدا کرے گا۔مسلم اور عرب ملکوں میں ایک کلیدی مقام حاصل کر لینے کے بعد پاکستان ہندوستان سے اپنی دیرینہ دشمنی کے تحت کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں کے حالات پر عالم اسلام میں مزید منفی پروپیگنڈہ شروع کرے گا جسے یہاں کے نا عاقبت اندیش ہندوتو کے علمبردار اپنی فرقہ وارانہ اور احمقانہ حرکتوں سے تقویت دیں گے جس کے دوررس منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مودی حکومت اور بی جے پی ان حالات سے اندرون ملک بھلے ہی سیاسی فائدہ اٹھا لے لیکن یہ ملک کے عظیم تر مفاد میں نہیں ہوگا، اس کی بھاری قیمت ملک کو ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ آپ کی بیرونی عزت اور اہمیت آپ کے اندرونی حالات پر ہی منحصر کرتی ہے، ارباب اقتدار کو یہ گانٹھ باندھ لینی چاہیے۔ خطہ میں اسلحہ کی دوڑ کا ایک نیا دور شروع ہوگا، ہمارا دفاعی بجٹ بڑھے گا جسں کا اثر لازمی طور سے ترقیاتی منصوبوں پر پڑے گا۔ سب سے بڑا خطرہ عرب ملکوں میں کام کر رہے ڈیڑھ دو کروڑ ہندوستانیوں کی ملازمت اور کاروبار کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کا بھی ہوگا کیونکہ عرب عوام کے دلوں میں اسرائیل سے نفرت اسرائیل کے حامیوں پر بھی اتر سکتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مودی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کو ہندوتو کے ایجنڈے سے پاک کرے، پرانی خارجہ پالیسی پر عمل کرے اور سی سا کھیلنے کے بجائے فلسطین اور عرب ملکوں سے اپنے رشتے مخلصانہ اور ایماندارانہ رکھے۔
obaidnasir@yahoo.com