ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
دوحہ میں موجود حماس قیادت کی رہائش گاہ پر 9 ستمبر کو کیا جانے والا حملہ اپنی اس نوعیت کے اعتبار سے گرچہ پہلا صہیونی ہجوم تھا کہ اب تک کسی خلیجی ملک پر ایسی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا گیا تھا، لیکن جہاں تک اسرائیل کے ہاتھوں عرب ملکوں کی سیادت کی پامالی کا سوال ہے تو یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی آخری ہوگا۔ عالمی اداروں کی ناکامی اور عرب ملکوں کے اپنے داخلی انتشار اور مغرب و امریکہ پر ان کے بے تحاشہ انحصار نے اسرائیل کو اس قدر جرأت عطا کردی ہے کہ اس کو یقین ہوگیا ہے کہ اب وہ تلمودی پیشین گوئی کے اس مرحلہ تک پہنچ گیا ہے، جس کے مطابق پوری دنیا کی قوموں پر وہ اکیلا ہی حکمراں ہوگیا ہے۔ امریکی وہائٹ ہاؤس میں ڈونالڈ ٹرمپ کی موجودگی نے نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی انتہا پسند سیاسی لیڈران کو مزید ہمت و جوش عطا کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ نے عالمی نظام کو بالکل پلٹ کر رکھ دیا ہے تو ایسا کہنا قطعاً غلط نہیں ہوگا۔
اب آیئے ذرا مختصر طور پر اس تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں جس کی رو سے پتہ چلے گا کہ اسرائیل نے کس طرح عرب ملکوں کی سیادت کو بار بار پامال کیا ہے۔ یہ 70 کی دہائی کی بات ہے جب سب سے پہلے لبنان کو اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا اور اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کے بعد جب 80 کی دہائی کا دور شروع ہوا تو اس صہیونی ریاست نے عراق پر 1981 میں حملہ کر دیا اور عراق کی نیوکلیائی ریئکٹر کو تباہ کیا گیا۔ 80ہی کی دہائی میں تیونس کی راجدھانی سے بالکل قریب واقع حمام الشط کو نشانہ بنایا گیا، جہاں پی ایل او کا دفتر موجود تھا۔ اس حملہ میں تقریباً 60 لوگوں کی شہادت ہوئی تھی۔ اس کے بعد ملک شام کی باری آئی۔ عراق ہی کی طرح شام کے نیوکلیائی ریئکٹر کو برباد کرنے کے دعویٰ سے یہ حملہ 2007 میں شام کے شہر دیر الزور کے قریب کیا گیا۔ اس کے بعد تو شام کی قسمت ایسی خراب ہوئی کہ اب تک اس کو سنوارنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن کامیابی نہیں ملی ہے۔ اسرائیل نے بطور خاص 2011 سے شام پر جن فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا ان کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔
جہاں تک یمن کا تعلق ہے تو اس پر اسرائیلی حملہ جولائی 2024 سے اب تک جاری ہے۔ یمن کے حوثیوں نے جب غزہ کے دفاع میں اسرائیل کو نشانہ بنایا اور بحیرۂ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو روکا تو اس کی بڑی قیمت انہیں چکانی پڑی ۔ ابھی دو دن قبل ہی اسرائیل نے یمن کے ایک میڈیا ہاؤس پر حملہ کرکے 60 صحافیوں کو شہید کر دیا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں حوثیوں نے اپنے وزیر اعظم اور کابینی وزرا تک کی قربانی بھی پیش کی ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف پوری قوت کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ تیونس میں اسرائیلی حملہ کی تجدید کے تعلق سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک بار پھر فلسطینی قضیہ کی خاطر ہی اس کی سیادت کو اسرائیل نے پامال کیا ہے اور اس کے آبی حدود میں اس صمود قافلہ پر ہجومی کارروائی کی گئی ہے جو غزہ کے حصار کو توڑنے کے لئے آ رہا ہے۔ اگر اس فہرست میں مصر کے ان شہروں کو شامل کرلیا جائے جو 1967 اور 1973 کی جنگوں کے وقت زد میں آئے۔ یا اردن پر 1968 میں معرکہ کرامۃ کے موقع پر جو اسرائیلی حملے ہوئے ان کو بھی اعداد و شمار کی ذیل میں لایا جائے تو یہ فہرست کافی طویل ہوجائے گی۔ اس تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوحہ پر حملہ سے قبل تقریباً 7 عرب ملکوں کی سیادت کو اسرائیل نے پامال کیا ہے۔ حال ہی میں ایران کے جوابی حملہ کو اگر چھوڑ دیا جائے تو باقی کسی عرب ملک نے اسرائیل کی جارحیت کا جواب نہیں دیا ہے۔ دوحہ پر کیا جانے والا حملہ آٹھواں تھا۔ غزہ اور ویسٹ بینک پر تو اسرائیلی حملے کی تعداد اس قدر بے شمار ہے کہ ان کا ذکر ہی کیا کرنا۔ اس طرح 9 ملکوں کے حدود و ثغور کی حرمت کو اسرائیل نے تار تار کیا ہے۔ اسرائیل کے یہ حملے اس تلمودی خواب کی تعبیر سے بہت حد تک میل کھاتے ہیں جس کی رو سے ایک عظیم اسرائیل کا قیام عمل میں لانا ضروری ہے۔ اس عظیم اسرائیل کی سرحد اسرائیل نے دریائے نیل سے نہر فرات تک طے کی ہے۔ یہ ایسا صہیونی خواب ہے جس کا برملا اظہار اسرائیل کے اعلی سطح کے لیڈران بار بار کر چکے ہیں۔ جب یمن پر پہلی بار حملہ کیا گیا تھا اس موقع پر یوآف گالانٹ نے اسی مقصد کا اعلان کیا تھا۔ دوحہ پر حملہ کے بعد اسرائیلی کینیسٹ کے جو بیانات آئے ہیں ان میں بھی اس صہیونی خواب کا ذکر ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے صدر نے کہا تھا کہ یہ حملہ مشرق وسطی کے لئے ایک پیغام ہے۔
انتہا پسند اسرائیلی لیڈران بن گویر اور اسماٹریچ نے تو بارہا ایسے بیانات دیئے ہیں۔ خود نیتن یاہو کا بیان بھی اس سلسلہ میں موجود ہے۔ قطر میں موجود حماس قائدین پر جو اسرائیلی حملہ ہوا اس کو حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے اور اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کی توقع کی جا رہی ہے کہ دوحہ پر ہونے والا حملہ آخری نہیں ہوگا بلکہ پڑوس کے دیگر عرب ممالک بھی اب اسرائیلی حملوں کی زد میں آسکتے ہیں۔ اگر اس صہیونی جارحیت کا دائرہ ترکی تک دراز ہوجائے تو بھی بالکل حیرت نہیں ہونی چاہئے۔یہ جرأت اسرائیل کو کیسے ہوجاتی ہے؟
اس کو سمجھنے کے لئے قارئین کو دوحہ چوٹی کانفرنس کی تفصیلات کو دیکھنا چاہئے۔اس مناسبت سے بھی عرب لیڈران نے صرف مذمتی بیانات جاری کئے اور بس! جن خلیجی ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کئے ہیں ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات کو ختم کرتے، جن ممالک کا خفیہ یا اعلانیہ اقتصادی تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم ہے ان کو یکلخت بند کیا جاتا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو اسرائیل کے وزیر اعظم کو اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ مستقبل میں قطر پر دوبارہ حملہ کی دھمکی دے ڈالتے۔ یہ دھمکی نیتن یاہو نے اس سیاق میں دیا ہے کہ قطر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حماس کے قائدین کو اپنی سرزمین سے نکال دے یا انہیں محاکمہ کے لئے پیش کرے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو ہم کریں گے۔ ذرا غور کیجئے کہ اس جنگی مجرم کو آخر اس قدر جسارت کیسے ہوتی ہے؟ یقینا اس کے پیچھے عرب قیادت کی اپنی ذاتی کمزوریاں موجود ہیں۔ کیا دنیا اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ قطر نے خود اسرائیل اور امریکہ کی درخواست پر حماس قائدین کو 2012 سے اپنی سرزمین پر ضیافت کا فریضہ انجام دینے کے لئے رضامندی دی تھی؟ جب 7 اکتوبر کا حملہ ہوا تو اس کے بعد کے مرحلہ میں بھی امریکہ و اسرائیل نے ہی قطر سے ثالثی کی درخواست کی تھی تاکہ حماس کی قید سے اسرائیلی یرغمال شدہ لوگوں کو آزاد کروایا جا سکے۔ دوحہ کی سر زمین پر بات چیت کے لئے جو میٹنگیں ہوئیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ ان میٹنگوں میں امریکی و اسرائیلی وفود بار بار حاضر ہوتے رہے۔
ان میٹنگوں کے نتیجہ میں ہی اسرائیلی یرغمال شدہ لوگ آزاد ہوئے جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کی ساکھ قیدیوں کے اہل خاندان اور عام یہودیوں کی نظر میں بہتر ہوئی۔ اس کے باوجود قطر کے خلاف جس فریب کا ارتکاب اسرائیل نے کیا ہے وہ اس کی فطرت میں ودیعت تاریخی خباثت کی واضح دلیل ہے۔ قطر کے ساتھ کئے جانے والے اس غدر و فریب سے ان خلیجی ملکوں کو سبق لینا چاہئے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں یا اس راہ پر چلنے کا مستقبل میں ارادہ رکھتے ہیں۔ قطر پر کیا جانے والا یہ اسرائیلی حملہ غیر معمولی اور آنکھ کھول دینے والا ہے۔ یہ باقی خلیجی ممالک کے لئے کھلا پیغام ہے کہ تمہارا نمبر بھی عنقریب ہی آئے گا اگر تم نے ہمارے مفادات کی تکمیل سے گریز کیا تو اس وقت غزہ میں جو اسرائیلی بربریت جاری ہے اس کے نتیجہ میں بھی مصر و اردن کے ساتھ یہی سب کچھ ہونے کا امکان ہے۔ اسرائیل اس ڈیزائن پر کام کر رہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو دھکیل کر سینا تک بھگا دیا جائے اور ویسٹ بینک کے لوگوں کو اردن میں پھینک دیا جائے۔ اگر اس معاملہ میں کوئی رکاوٹ آئے گی تو ان ملکوں پر بھی حملے ہوں گے۔ ترکی پر حملے کا امکان اس لئے پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ وہاں سے صرف فلسطینی مقاومت کو ہی مدد نہیں مل رہی ہے بلکہ ملک شام کو بھی ترکی کا تعاون مل رہا ہے۔
اسرائیل دراصل شام کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ خاص طور سے سویدا کا علاقہ جس میں دروز بستے ہیں اس کو الگ کرنا اس کے مفاد میں ہے۔ ترکی ایسی کسی تقسیم کی اجازت نہیں دے سکتا اس لئے اسرائیل کے حملہ کا امکان برقرار رہے گا۔ اس تناظر میں اب عرب ملکوں کو اس بات کا احساس بھی ہو جانا چاہئے کہ اس خطہ میں ان کا دشمن ایران نہیں بلکہ اسرائیل ہے۔ طویل مدت سے اسرائیل اور امریکہ نے عرب لیڈروں کو اس جھانسہ میں رکھا ہوا تھا کہ ان کا اصل دشمن ایران ہے۔ اب جب کہ اس راز سے پردہ اٹھ چکا ہے تو انہیں ہوش کے ناخن لینے میں تاخیر سے کام نہیں لینا چاہئے۔ فلسطین کی مقاومت و مزاحمت کے پیچھے پوری قوت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اور ان کا ہاتھ مضبوط کرنا چاہئے کیونکہ یہی وہ آہنی دیوار ہے، جس کو مضبوط کرنے میں سب کی بھلائی مضمر ہے۔ اس کالم میں پہلے بھی بارہا اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت کو اگر شکست ہوگی تو اگلا نمبر باقی پڑوسی ممالک کا آئے گا۔ آج یہ حقیقت پہلے سے زیادہ واضح ہے۔ اگر عرب ملکوں نے ماضی کی غلطیاں دہرانی بند نہیں کیں تو ان کا مستقبل سخت خطرہ میں پڑ جائے گا کیونکہ اسرائیل اور امریکہ لائق اعتبار حلیف ہرگز نہیں ہو سکتے ۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)