محمد حنیف خان
ایک بار جنگل کے سبھی جانوروں نے طے کیا کہ شیر کو گدی سے ہٹا کر کسی دوسرے کو یہ عہدہ دیا جائے،بحث و تمحیص کے بعد بندر کو اس کا حق دار قرار دیا گیا اور وہ گدی پر براجمان ہوگیا،ایک دن شیر بکری کا بچہ اٹھا لے گیا،بکری روتے بلکتے بندر کے پاس پہنچی اور شیر کی شکایت کرتے ہوئے اس سے فریاد کی کہ میرے بچے کو مجھے واپس دلایا جائے،پہلے تو بندر بغور اس کی بات سنتا رہا،جب وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگئی تو اس نے ایک جست لگائی اور پیڑ کی پھننگ پر پہنچ گیا،تھوڑی دیر بیٹھارہا پھر نیچے کی طرف آیا اورپھر ایک ڈال سے دوسری ڈال، دوسری سے تیسری ڈال۔ ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ اور دوسرے سے تیسرے پیڑ پر اچھل کود شروع کردی۔بکری روتی رہی اور دیکھتی رہی، جب اسے یقین ہوگیا کہ بندر رکے گا نہیں تو اس نے کہا حضور میرے بچے کو شیر اٹھالے گیا ہے، آپ یہی کرتے رہے تو وہ اسے کھا جائے گا۔یہ سن کر بندر رکااور غور سے دیکھنے کے بعد کہا۔تمہارا بچہ زندہ بچے یا نہ بچے ہمیں اس سے مطلب نہیں ہماری محنت میں کوئی کمی آئی ہو تو بتاؤ؟عرب دنیا فلسطین کے ساتھ یہی کرتی رہی ہے۔اس سے زیادہ اس نے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔اسرائیل نے لبنان، شام، ایران، یمن کے بعد اب جب قطر پر حملہ کردیا تو پھر ایک بار یہی عمل شروع ہوگیا ہے۔
پوری دنیا اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے واقف ہے،وہ کوئی زمین کی جنگ نہیں لڑ رہا ہے بلکہ وہ ایک مذہبی جنگ لڑ رہا ہے،نتن یاہو نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اس سرزمین پر ان کا حق ہے،جسے وہ لے کر رہیں گے، مگر عرب دنیا اس سے بے فکر ہو کر اپنی عیش کوشیوں میں مصروف رہی اور ابھی تک ہے،اسے اپنی حکومت سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہیں جس کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل جب جسے جہاں چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے مارتا ہے۔جس کے بعد یہ سبھی ممالک اس کے خلاف ریزولیوشن پاس کرتے ہیں، جس کی حقیقت ان ممالک کے ساتھ ہی اسرائیل کو بھی معلوم ہے،اس لیے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا اس وقت تاریخ کے اس موڑ پر کھڑی ہے جب اس کی بزدلی پر شجر و حجر تک مہر ثبت کر رہے ہیں۔بادی النظر میں ایسا لگ رہاکہ سب متحد ہوگئے ہیں اور اچھا ہوا اسرائیل نے قطر پر حملہ کردیا جس نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا مگر درحقیقت ایساکچھ نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے سب کی باری آ رہی ہے،سب پٹ رہے ہیں، سب نمٹ رہے ہیںاور سب سر جوڑ کر بھی بیٹھ رہے ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا ہے، سوائے اس کے کہ عرب دنیا اپنے ہر قدم سے خود کی ہی تذلیل کر رہی ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد آن کیمرہ جو ہوا اسے پوری دنیا نے دیکھا،نتھنے پھلا پھلا کر غصے کا اظہار، دنیا سے اسرائیل کو سزا دینے کا مطالبہ اور بھی بہت کچھ جسے دیکھ کر ہنسی اور افسوس کے سوا کچھ نہیں حاصل، 57مسلم ممالک دنیا سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو سزا دے،جبکہ اسرائیل تن تنہا کئی ممالک پر چڑھ دوڑا ہے، فلسطین، لبنان، شام، ایران، یمن اور قطر پر تو حملے ابھی کی بات ہیں جو جاری ہیں۔ایسالگتا ہے کہ یہ سبھی ممالک دودھ پیتے بچے ہیں جنہیں اسرائیل اور دنیا کی حقیقت نہیں معلوم،جو یہ نہیں جانتے کہ یہ سانڈ کہاں سے آگیا ہے،اسے کون لوگ لے کر آئے ہیں جو ہر طرف تاراجی مچائے ہوئے ہے۔
بات در اصل یہ ہے کہ سبھی مسلم ممالک کو سب کچھ پتہ ہے مگر یہ اپنے آقا کی خوشنودی میں اس قدر بچھے ہوئے ہیں کہ اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں،معاہدہ ابراہیم کے نام پر خودکو لبرل مان کر دنیا کے سامنے اپنی اچھی شبیہ پیش کرنے کے لیے اسرائیل کو بھی تسلیم کر رہے ہیں،بہت سے ایسے ممالک ہیں جو پس پردہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ساز باز بھی کچھ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ان سب میں سب سے اہم بات جو ہے وہ فلسطینیوں کی جانب سے اغماص ہے۔گزشتہ تین برس سے اسرائیل نے فلسطین کو پوری طرح سے تباہ و برباد کردیا،اقوام متحدہ کی رپورٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس نے نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے مگر عرب دنیا اس سے لاتعلق رہی،اس کے درد کو محسوس نہیں کیا اس کی کوئی مدد نہیں کی۔پوری عرب دنیا نے جو کیا اس کی حیثیت بندروں کی اچھل کود سے زیادہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
یہ دنیا بڑی خوبصورت ہے، جدید تکنیک اور سامان آسائش نے اسے مزید خوبصورت بنادیا ہے،یہ خوبصورتی ان افراد کے لیے اور بھی زیادہ اہم ہے جو اس سے لطف اندوز ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں۔استطاعت کے ساتھ توازن اگر ہوتو یہ دنیا جنت بن جاتی ہے لیکن اگر توازن نہیں ہے تو یہی دنیا جنت اور جہنم دونوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔اس وقت مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا اسی کا سامنا کر رہی ہے۔عربوں کو خدا نے قدرتی معدنیات اور تیل کے ذخائر سے نوازاہے،جس نے ان کی زندگی کے ساتھ ہی دنیا کی شکل تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔عربوں کے پاس یہ استطاعت ہے کہ وہ دنیا کی کوئی بھی جدید شے حاصل کرلیں کیونکہ وہ فلوس(روپے، پیسے) سے مالامال ہیں،اس دولتمندی نے ان سے ان کا تواز ن چھین لیا،وہ زندگی میں آنے والے دنوں کے احساس سے عاری اور بری ہوگئے، انہوں نے یہ سوچناہی چھوڑ دیا کہ محنت اور علم بھی کوئی چیز ہوتی ہے،ایجاد بھی کسی چڑیے کا نام ہے جس سے دنیا کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ہی ترقیات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں،وہ قدرتی معدنیات اور تیل کے ذخائر کو اصل الاصول مان کر اس سے حاصل ہونے والی رقم کے ذریعہ اپنی زندگی کو زعفران زار بنانے میں مصروف ہوگئے۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنے تحفظ و سلامتی تک کو اہمیت نہیں دی،ان کی فوجیں محض علامتی ہیں جن کا میدان جنگ سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ان کے پاس جو اسلحے ہیں سب یوروپی اور امریکی ہیں، جن کے ڈیولپمنٹ میں یہودیوں کا کلیدی کردار ہے۔ہوائی جہاز سے لے کر سوئی تک سب وہ خریدتے ہیں، فوجوں کی تربیت سے لے کر اپنی پوری سلامتی تک امریکہ کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ ایجادات کے نام پر صفر ہیں،ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرلیں گے۔یہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اسلحہ جات کی خرید و فروخت کے وقت ملکوں کے درمیان کئی طرح کے معاہدے ہوتے ہیں،یہاں تک کہ ان اسلحوں کو کب اور کہاں استعمال کیا جائے گا اس سے متعلق شرطیں بھی ہوتی ہیں۔
عرب ممالک جن کے پاس اپنے جیٹ فائٹر ہیں، گولہ و بارود اور اسلحہ جات ہیں،وہ ان سب کے مالک ہونے کے باوجود مالک نہیں ہیں،ایسے میں اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈالنا عربوں کے بس کی بات بالکل نہیں ہے۔یہ سب کے سب کاغذی شیر سے زیادہ کی کوئی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ خوشی کے ایام میں عیش کوشی کو اپنا حق تصور کیا تھا۔اگر ان ممالک نے اپنی سلامتی کو ہی اہمیت دی ہوتی تو آج یہ اتنے بے دست و پا نہیں ہوتے۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے حالیہ بیان میں جو بات کہی ہے وہ حد درجہ اہم بھی ہے اور عربوں کے لیے تازیانہ بھی۔اس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل ہے تو اسرائیل کا ایک ٹکڑا آپ کے پاس ہے۔یہ بات محض ایک ٹکڑے کی نہیں ہے،اس جملے کے پیچھے ان کی ایجادات کے زعم کے ساتھ ہی یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اگر موبائل ہے تو آپ ہمارے نشانے پر ہیں،ہمارا آپ تک پہنچنا مشکل نہیں ہے۔یہ در اصل تہدید اور دھمکی بھی ہے۔یہ نوبت اس لیے آئی کہ ریسرچ اور ایجادات کی جانب عربوں نے توجہ نہیں دی،انہوں نے دولت کو سب کچھ سمجھا اور سوچا کہ اس کے ذریعہ تو ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں،بلاشبہ حاصل بھی کیا،دنیا کی ہر آسائش کا سامان عربوں کے پاس ہے اگر نہیں ہے تو سلامتی کی گارنٹی۔لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر اپنا وجود ہی محفوظ نہیں ہوگا تو پھر سامان تعیش کے کیا معنی ہیں؟
عرب دنیا کو اب اپنی آنکھیں کھولنی چاہیے،سب سے پہلے انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسرائیل زمین کی جنگ نہیں لڑ رہا ہے بلکہ وہ مدینہ کے بنو قریظہ اور بنو قینقاع کی اولاد ہیں جو یہاں تک قبضہ چاہتے ہیں۔دوسرے اپنی سلامتی پر از سر نو غور کرکے ریسرچ اور ایجادات کی جانب اپنا رخ موڑنا ہوگا مگر اس سے قبل انہیں امریکہ اور اس کے حواریوں کے چنگل سے باہر آنا ہوگا،یوروپی یونین کی طرح مسلم یونین بناکر عملی سطح پر اقدام کرنا ہوگا۔چین اور روس سے تعلقات استوار کرکے ریسرچ میں ان دونوں سے تعاون لے کر خود کفیل بننا ہوگا۔اگر یہ اقدام نہیں کیے جاتے ہیں تو ذلت و خواری کو کوئی نہیں ٹال سکتا کیونکہ عمل سے ہی یہ دنیا جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔
haneef5758@gmail.com