ڈاکٹر محمد فاروق
ہندوستانی سیاست میں ’’دراندازی‘‘ ایک ایسا استعارہ بن چکا ہے جسے بی جے پی نے اپنی ہندوتو سیاست کے بنیادی ایجنڈے کے طور پر اختیار کر رکھا ہے۔ ہر انتخابی موسم میں یہ نعرہ ایک نئے رنگ میں دہرا دیا جاتا ہے کہ ملک بنگلہ دیشی دراندازوں سے بھر گیا ہے، یہ درانداز ہماری زمین، نوکریاں اور عزت سب کچھ چھین رہے ہیں۔ لیکن کبھی کسی مرکزی یا ریاستی حکومت نے یہ بتایا کہ آخر وہ کون سے اعداد و شمار ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لاکھوں بنگلہ دیشی غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ سو یہ دعویٰ محض ایک سیاسی فریب ہے،ایک ایسا افسانہ جس کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں خوف اور نفرت بوئی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہجرت کا رجحان ہمیشہ غریب ممالک سے امیر ممالک کی طرف ہوتا ہے۔ روزی روٹی کی تلاش انسان کو اپنی جڑوں سے کاٹ کر اجنبی زمینوں پر لے جاتی ہے۔ ہندوستان کے لاکھوں شہری بہتر مواقع کیلئے امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں غیر قانونی طور پر بھی ہجرت کرتے ہیں۔ دلچسپ مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ امریکہ میں غیر قانونی ہندوستانی تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد مودی کی ’’ماڈل ریاست‘‘ گجرات سے ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں جن ہندوستانیوں کو بڑی تعداد میں ڈی پورٹ کیا گیا،ان میں زیادہ تر کا تعلق گجرات ہی سے تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر روزگار کی تلاش میں گجراتی باشندے امریکہ تک دراندازی کرسکتے ہیں تو غربت کے شکار بنگلہ دیشی اپنی سرحد کے اس پار کیوں نہیں آ سکتے؟ مگر بی جے پی کے نزدیک گجراتی درانداز ’’محنتی‘‘ اور بنگلہ دیشی مسلمان درانداز ’’خطرہ‘‘،یہی مذہبی سیاست کا فریب ہے۔
وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک،سبھی لیڈر گلا پھاڑ کر یہی دہراتے ہیں کہ ملک بنگلہ دیشی دراندازوں سے بھر گیا ہے۔ لیکن کبھی کسی نے کھلے عام یہ بتانے کی ہمت نہیں کی کہ یہ تعدادآخر کتنی ہے؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ اگر اصل حقیقت سامنے آ جائے تو یہ سارا شورشرابہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اصل میں ہدف ’’بنگلہ دیشی‘‘ نہیں بلکہ ’’بنگالی بولنے والے مسلمان‘‘ ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں جس منظم طریقے سے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو گرفتار اور ہراساں کیا گیا،وہ کسی اچانک اقدام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طے شدہ حکمت عملی ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت یہ تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیشی مسلمان زمینیں ہتھیا رہے ہیں،نوکریاں چھین رہے ہیں،ہندو اور قبائلی لڑکیوں سے شادیاں کر رہے ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرکے ملک کی ڈیموگرافی بدل دینا چاہتے ہیں۔ یہ بیانیہ کسی افسانوی کہانی سے کم نہیں،مگر انتخابی نفرت انگیزی کیلئے بی جے پی اسے حقیقت بنا کر پیش کرتی ہے۔ ہندوستان کی 145 کروڑ آبادی میں مسلمان تقریباً 23 کروڑ ہیں،جبکہ بنگلہ دیش کی کل مسلم آبادی 17 کروڑ ہے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ تمام بنگلہ دیشی مسلمان ہندوستان آبھی جائیں تو یہ تعداد 40 کروڑ ہوگی،جو اب بھی اکثریتی ہندو آبادی کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ اس سادہ سی ریاضی کے بعد دراندازی کے ’’خطرے‘‘ کا افسانہ خود بخود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔
اس بیانیے کی سیاسی بازگشت مغربی بنگال میں سب سے زیادہ سنائی دیتی ہے جہاں آنے والے اسمبلی انتخابات میں مہاجرین دونوں بڑی جماعتوں، ترنمول کانگریس اور بی جے پی کیلئے سیاسی ہتھیار بننے والے ہیں۔ ممتابنرجی اپنی انتخابی حکمت عملی میں بار بار یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بنگالی مزدوروں کو بنگلہ دیشی کہہ کر ہراساں کیوں کیا جا رہا ہے؟ ان کا دعویٰ ہے کہ مختلف ریاستوں میں کام کرنے والے 22 لاکھ مہاجر مزدوروں کو مسلسل پریشان کیا جا رہا ہے۔ ممتا حکومت نے ان کی واپسی کیلئے ’’شرم شری‘‘ اسکیم شروع کی ہے جس کے تحت انہیں سفری الائونس اور ماہانہ امداد دی جائے گی۔ یہاں تک کہ ان کی شناخت کیلئے تصویری کارڈ جاری کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیا گیا ہے۔
ترنمول کی اس حکمت عملی کاہدف دیہی ووٹ بینک کو ایک بار پھر مستحکم کرناہے۔ 294 اسمبلی نشستوں میں سے 174 دیہی علاقے ہیں اور گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں یہی دیہی ووٹ ممتا کیلئے ڈھال بنے تھے۔ زبان اور شناخت کے سوال کو تحریک کی شکل دے کر ترنمول عوامی ہمدردی سمیٹنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی نے اپنی حکمت عملی ترتیب دے لی ہے۔ اس کا ہدف تقریباً 10 لاکھ نوجوان ہیں جو ملک کی مختلف ریاستوں خصوصاً آئی ٹی سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ پارٹی یووا مورچہ کے ذریعے ان سے رابطے میں ہے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ بنگال لوٹ کر انتخابات میں ووٹ ڈالیں۔ بی جے پی کی دلیل ہے کہ ممتا حکومت مائیگرنٹ ورکرز ویلفیئر کونسل کے نام پر دراصل بنگلہ دیشی دراندازوں کو ہندوستانی شہریت دلا رہی ہے۔ یہ وہی پرانا بیانیہ ہے جسے وہ ہر موقع پر دہراتی ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بی جے پی انہی مہاجر بنگالیوں کو اپنی انتخابی حکمت عملی کا مرکز بنا رہی ہے جو بیرون ریاست کام کر کے واپس ووٹ ڈالنے تک نہیں آتے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ان مہاجرین کو منظم کیا جائے اور وطن لوٹنے پر مجبور کیا جائے تو ایک نیا ووٹ بینک کھڑا ہو سکتا ہے۔
مگر یہ ساراکھیل دراصل ایک ہی چیز خوف اور نفرت کی سیاست کے گرد گھومتا ہے۔ بنگالی مسلمان کو ’’درانداز‘‘ کہہ کر پیش کرنا،مہاجر مزدور کو ’’غدار‘‘ کے خانے میں ڈال دینا اور ہجرت کے انسانی مسئلے کو مذہبی اور سیاسی تنازع میں بدل دینایہ سب وہ حربے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یہ ملک 145 کروڑ انسانوں کا ہے،یہاں کے مسائل غربت،بے روزگاری،تعلیم اور صحت ہیں۔ مگر ان حقیقی مسائل پر بات کرنے کے بجائے دراندازی کے افسانے گڑھ کر قوم کو بانٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ افسانے وقتی طور پر ووٹ تو دلا سکتے ہیں مگر طویل مدت میں یہ نفرت، بدگمانی اور تقسیم کی ایسی دراڑیں ڈال دیتے ہیں جنہیں بھرنے میں نسلیں لگ جاتی ہیں۔ انتخابی فائدے کیلئے اگر ملک کی سماجی ہم آہنگی دائو پر لگا دی جائے تو یہ سیاست نہیں بلکہ اجتماعی خودکشی کا عمل ہے۔
farooquekolkata@yahoo.com