سپریم کورٹ سے وقف ترمیمی ایکٹ کی بابت ایک جامع حتمی فیصلے کی توقع : خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

جب stake holders نے سپریم کورٹ کے روبرو وقف ترمیمی ایکٹ، 2025 کے جواز کو چنوتی دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے اور اس کی عملدرآمدگی کو روکنے کے لیے حکم موقوفی(stay order)صادر کرنے کی سپریم کورٹ سے استدعا کی تو چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپنے عبوری حکم میں وقف ترمیمی ایکٹ، 2025کی بعض دفعات کی عمل درآمدگی پر روک تو لگا دی لیکن مکمل ایکٹ کی بابت حکم موقوفی اس بنیاد پرصادر کرنے سے انکار کر دیا کہ کسی قانون کو کالعدم قرار دینا ایک انتہائی غیرمعمولی قدم ہوتا ہے اور کسی قانون کو نایاب سے نایاب ترین صورت حال(rarest of rare situation) میں ہی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس گو ئی نے یہ بھی کہا کہ 1923 کے وقف ایکٹ سے لے کر اب تک کی قانون سازی کی تاریخ اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 2025 کے ترمیمی ایکٹ کی بابت حکم موقوفی صادر کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ تاہم، عدالت نے عبوری طور پر ایکٹ کی کچھ دفعات اور ذیلی دفعات کے نفاذ پر روک لگا دی۔ جن دفعات کی عملدرآمدگی پر روک لگائی ہے ان کی عبارت درج ذیل ہے:

دفعہ3C:(1) کوئی بھی سرکاری جائیداد جس کی اس ایکٹ کے نافذ ہونے سے پہلے یا بعد میں وقف جائیداد کے طور پر شناخت کی گئی ہو یا اسے وقف جائیداد قرار دیا گیا ہو، اسے وقف جائیداد تصورنہیں کیا جائے گا۔(2) اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا کوئی مخصوص جائیداد سرکاری جائیداد ہے یا نہیں، تو ریاستی حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے کلکٹر کے عہدے سے اونچے درجے کے کسی افسرکو (جسے مابعد ’’نامزد افسر‘‘کہا جائے گا) نامزد کرے گی، جو قانون کے مطابق تحقیقات کرے گا اور یہ طے کرے گا کہ مذکورہ جائیداد سرکاری جائیداد ہے یا نہیں اور اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو پیش کرے گا:مگر شرط یہ ہے کہ جب تک نامزد افسر اپنی رپورٹ پیش نہ کرے، اس جائیداد کو وقف جائیداد تصور نہیں کیا جائے گا۔اس طرح عدالت نے اس ذیلی دفعہ کے فقرۂ شرطیہ (proviso) کی عمل درآمدگی پر روک لگا دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کسی زمین کو اس وقت تک وقف جائیداد نہیں مانا جائے گا جب تک حکومت کا نامزد افسر یہ رپورٹ نہ دے دے کہ آیا زمین پر ناجائز قبضہ ہے یا نہیں۔(3) اگر نامزد افسر اس نتیجے پر پہنچے کہ متعلقہ جائیداد سرکاری جائیداد ہے تو وہ ریونیو ریکارڈ میں ضروری تصحیح کرے گا اور اس کے بارے میں ریاستی حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔(4) ریاستی حکومت، نامزد افسر کی رپورٹ موصول ہونے پر، بورڈ کو ہدایت دے گی کہ وہ اپنے ریکارڈ میں مناسب تصحیح کرے۔

مندرجہ بالا دفعات کے التزامات خود وضاحتی ہیں۔ان التزامات کے بارے میں سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں اپنی اس ضمنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہ اختیارات ایک سرکاری افسر کو دینا کہ وہ کسی جائیداد کو وقف قرار دے، اس پر رپورٹ دے، اور اس کی بنیاد پر ریاستی ریونیو ریکارڈ اور وقف بورڈ کے ریکارڈ میں ترمیم کی جائے، عدلیہ کی عاملہ سے علیحدگی یعنی Separation of powers کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ نے ان دفعات کو موقوف کرنے کے ساتھ ساتھ دفعہ 3(r)پر بھی روک لگا دی ہے جس میںیہ التزام ہے کہ واقف یعنی وقف قائم کرنے والا یہ ثابت کرے کہ وہ کم از کم گزشتہ پانچ سال سے با عمل مسلمان (Practising Muslim) ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس دفعہ میں یہ طے کرنے کا کوئی واضح نظام نہیں ہے کہ کون شخص ’’عملی مسلمان‘‘ہے۔ جج صاحبان نے حکم دیا کہ جب تک حکومت اس کے لیے کوئی رہنما اصول نہیں بناتی، اس شرط پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب تک وقف ٹربیونل یا اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے حتمی فیصلہ نہ ہو جائے تب تک جائیداد کے مالکانہ حقوق متاثر نہیں ہوں گے اور وقف جائیدادوں سے کسی کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ جب تک مقدمہ زیرالتوا ہے، کوئی وقف کسی تیسرے فریق کو جائیداد کے حقوق منتقل نہیں کرے گااور حکومت کو بھی کسی وقف اراضی کی شناخت ختم کرنے کا حق نہیں۔ عدالت نے مزیدیہ بھی کہا کہ مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کی تعداد چار سے زیادہ نہ ہو اور ریاستی وقف کونسل میں تین سے زیادہ نہ ہو،البتہ وقف بورڈز کو یہ کوشش کرنی چاہیے(یعنی لازمی نہیں) کہ ان کا سرکاری (ex-officio) چیئرمین کسی مسلمان کو بنایا جائے لیکن عدالت نے اس دفعہ پر روک نہیں لگائی جو کسی غیر مسلم کو ریاستی وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) بننے کی اجازت دیتی ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہWaqf by user یعنی استعمال کے باعث وقف کو آئندہ کے لیے ختم کرنا غیر قانونی نہیں۔ استعمال کے باعث وقف کو صرف اس وجہ سے ختم نہیں سمجھا جائے گا کہ اب اس کا استعمال بند ہو گیا ہے خواہ اس کا استعمال کسی بھی مدت سے نہ رہا ہو۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب1923سے آج تک اوقاف کا رجسٹریشن لازمی رہا ہے تو متولی کس طرح یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہیں غیر رجسٹر شدہ اوقاف کو جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے وقف کے رجسٹریشن کے لیے عائد کی گئی نئی شرائط میں مداخلت سے انکار کر دیا اور اوقاف کے رجسٹریشن کے لیے دی گئی مہلت میں بھی توسیع کر دی۔

دیگر اہم دفعات جن میں عدالت نے مداخلت نہیں کی ان میں شامل ہیں:درج فہرست علاقوں اور محفوظ تاریخی یادگاروں کی بابت وقف بنانے پر پابندی، صرف مسلمانوں کو وقف بنانے کا حق دینے والی شرط، وقف ایکٹ پر قانونِ تحدید مدت (Limitation Act) کے اطلاق کی شرط، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت حتمی فیصلہ ہونے تک ان امور پر غور نہیں کرسکتی۔سپریم کورٹ نے خود یہ بات کہی ہے کہ اس کی مختلف امور کی بابت ضمنی رائے محض بادی النظری نوعیت کی ہے۔یاد رہے کہ یہی سپریم کورٹ سید محمد سالق لببائس بنام محمد حنیفہ والے معاملے (AIR1976SC1569) میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایسے معاملے میں فریق متعلق سے اس کے وقف کیے جانے کاثبوت پیش کرنے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے یہ قوی امید ہے کہ وہ حتمی فیصلہ دیتے وقت اس معاملے کے ان تمام پہلوؤں پر بھی غور کریں گے جنہیں عبوری حکم میں نظر انداز کیا گیا یا کم اہمیت دی گئی۔ انہیں چاہیے کہ وہ حتمی فیصلے دیتے وقت اس معاملے کے مذہبی پہلو کو بھی مد نظر رکھیں چونکہ اب تو ہماری عدالتیں مذہبی امور سے متعلق فیصلے دیتے وقت متعلقین کی آستھا کو بھی مد نظر رکھتی ہیں اور رکھنا بھی چاہیے۔ویسے بھی ہمارے آئین کی دفعات25اور26 میںبالترتیب تمام اشخاص کو مذہبی آزادی اورمذہبی امور کے انتظام کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
amkhwaja2007@yahoo.co.in

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS