نیپال کے تختہ پلٹ میں ’ جن زیڈ‘ کا کردار: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

نیپال میں کے پی شرما اولی حکومت کے استعفیٰ اور تختہ پلٹ کے بعد12ستمبرکی رات میں صدر رام چندر پوڈیل نے سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو عبوری حکومت کے وزیراعظم کے طور پر عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔ انہوں نے وزیراعظم کی سفارش پر ایوان نمائندگان کو تحلیل کرتے ہوئے 5 مارچ 2026کو ملک میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔اسی کے ساتھ نیپال میں نئی سیاست کی شروعات ہوئی اور73سالہ پہلی خاتون چیف جسٹس کارکی نے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کا عہدہ سنبھال کر تاریخ رقم کی۔حالاں کہ نوجوان طبقہ میںخاصی مقبول سشیلا کارکی ایک باشعور اور عزت کی نگاہ سے دیکھی جانے والی خاتون ہیں،اس کے باوجود وہ نوجوانوں کی پہلی پسند نہیں تھیں۔ان کی پہلی پسند ’جن زی تحریک‘ کی کھلی حمایت کرنے والے کاٹھمنڈو کے میئر بالین شاہ تھے۔بالین شاہ کے اقتدار سنبھالنے سے انکار کے بعد سشیلا کارکی کی راہ آسان ہوئی۔ بالین شاہ نے ان کے نام کی حمایت کرکے نہ صرف عبوری حکومت کی تشکیل میں مدد کی،بلکہ نیپال کے سیاسی بحران کو ختم کرانے میں بھی اہم کردار اداکیا۔سشیلا کارکی کی حلف برداری تقریب کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سربراہوں نے بائیکاٹ کیا۔ سابق وزیراعظم اولی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان کے اسپیکر دیوراج گھمیری اورپرچنڈ کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دوسرے ایوان کے چیئر پرسن نرائن دہال نے تقریب میں شرکت نہیں کی۔

نیپال کے بدلتے سیاسی منظرنامے اورمحض4روز میں اولی حکومت کا تختہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کرنے والے ’جن زی‘ کا نام باربار سنا گیا۔’جن زی‘ کی قیادت میں چلائی گئی تحریک کے نتیجے میں وہاں سیاسی الٹ پھیر ہوا۔’جن زی‘ کیا ہے؟ دراصل، 1997 سے 2012کے دوران پیدا ہونے والے افراد کو ’جنریشن زی‘ (Generation Zee)جس کی شارٹ فورم’جن زیڈ‘(Gen Z)ہے کو غیررسمی طور پر ’جنریشن زومرس‘ کے طور پر جاناجاتاہے۔یہ ایک آبادیاتی گروپ ہے۔ ’جنریشن زیڈ‘ کے زیادہ تر اراکین جنریشن ’ایکس‘ کی اولاد ہیں اور بہت سے لوگوں سے مجوزہ جنریشن ’بیٹا‘ کے والدین ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔آبادیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ ہزارسالہ یا ’وائی‘ جنریشن کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کو ’ جنریشن زیڈ‘ کہا جاتا ہے۔یہ نسل اُس دور میں پیدا ہوئی،جب انٹرنیٹ کا اثر کافی بڑھ گیاتھا۔اس نے ہوش سنبھالتے ہی انٹرنیٹ پر کام کیا۔ اسے لیپ ٹاپ، آئی فون، گیزیٹس اور 5-G تیزرفتار والا انٹرنیٹ ملا۔ چھوٹی عمر سے ہی انٹرنیٹ اور پورٹیبل ڈیجیٹل ٹکنالوجی تک رسائی کے ساتھ پروان چڑھنے والی یہ پہلی سماجی نسل جب بڑی ہوئی،تو سوشل میڈیا پر کافی ایکٹو ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ جب نیپال کی اولی سرکار نے آن لائن نفرت، افواہوں اور سائبر جرائم پر قدغن کی کوشش کے تحت 4 ستمبرسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی غیر رجسٹرڈ 26سائٹس فیس بک، میسنجر، انسٹاگرام، یوٹیوب، وہاٹس ایپ، ایکس، لنکڈان، اسنیپ چیٹ، ریڈٹ، ڈسکارڈ، پنٹیریسٹ، سگنل، تھریڈس، وی چیٹ، کیورا، ٹمبلر، کلب ہاؤس، ماسٹوڈن، رمبل، می وی، وی کے، لائن، ایمو، زالو، سول اور ہیمروپیٹرو پرپابندی لگائی تو آن لائن گیمنگ، ای-

کامرس اور ڈیجیٹل پیمنٹ اپنانے کے علاوہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے والے نوجوانوںکا غصہ بھڑک گیااور انہوں نے اس کی مخالفت میں سڑکوں پر اترکر مظاہرے شروع کردیے۔رجسٹریشن کے لیے28اگست سے3ستمبر تک کا وقت دیا گیا تھا، لیکن کمپنیوں نے رجسٹریشن کرانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔4ستمبر کی میٹنگ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی کا فیصلہ لیاگیااور دیررات اسے نافذ کردیاگیا۔مواصلات اور آئی ٹی کے وزیر پرتھوی سبا گرونگ کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو رجسٹریشن کے لیے کافی وقت دیاگیا اور باربار درخواست کی گئی، لیکن انہوں نے اسے نظرانداز کردیا۔اس کے بعد یہ سخت قدم اُٹھانا پڑا۔ سوشل میڈیا پر پابندی سے مظاہرین مشتعل ہوگئے اور انہوں نے توڑپھوڑ اور آتش زنی شروع کردی۔ پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، پریسیڈنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس سمیت کئی سرکاری عمارتوں میں آگ لگادی۔اس سے عمارتوں کو ہی نہیں ملک کی قومی سوچ کو بھی زبردست نقصان پہنچا۔

تحریک کے پرتشدد رُخ اختیار کرنے سے صورت حال بے قابو ہوگئی۔ نوجوان نسل بھی کچھ سمجھنے سے قاصررہی۔احتجاج سوشل میڈیا پر پابندی اور ’نیپوکڈس‘ کے بچوں کی پرتعیش زندگی کے خلاف غصے کے اظہار کے لیے شروع ہواتھا۔ اولی حکومت سیاسی صورت حال کاصحیح اندازہ نہیں لگا سکی۔ اس کے5وزرا مستعفی ہوگئے۔فوج کی صلاح پروزیراعظم کو بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بظاہر احتجاج کی اصلی وجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی نظر آتی ہے، لیکن یہ تحریک منظم نہیں تھی۔رفتہ رفتہ سڑکوں پر آئی لوگوں کی بھیڑ تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ تحریک کے پس پشت صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر قدغن لگانا نہیں، بلکہ نوجوانوں کے قلوب میںپہلے سے چلا آرہا بدعنوانی مخالف غصہ تھا،جو سوشل میڈیا بین سے بھڑک گیا۔ اس دوران باقاعدہ کسی قائدکے نہیں ہونے سے تحریک بکھر ی بکھری نظر آئی۔ مظاہرین ایک رائے نہیں تھے اور الگ الگ مطالبات کر رہے تھے۔ کہیں کہا جا رہا تھا کہ بدعنوانی بند ہو، یہ اہم ایشو ہے۔نئی سرکار آئے گی،تو بدعنوانی بند ہو جائے گی۔کہیں کہا جا رہا تھا کہ ملک میں بے روزگاری بہت ہے،اس کا حل نکالا جائے اور بدعنوانی پر روک لگائی جائے۔4روز کے احتجاج و مظاہروں میں72لوگوں کی موت اور سیکڑوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد سیاسی بحران ختم کرانے کے لیے12ستمبر کو صدر پوڈیل اور فوج کے سربراہ اشوک راج سگڈیل کی قیادت میں ’شیتل نواس‘ میں اسٹیک ہولڈرز کے درمیان میٹنگوں کے کئی دور ہوئے۔ان میں موجودہ چیف جسٹس پرکاش مان سنگھ راوت اور مشتعل ’جن زی‘ کے نمائندے موجود رہے۔ میٹنگ میں سب سے بڑا تعطل پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا تھا۔

آرمی چیف سگڈیل نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا مشورہ دیا۔ صدر نے آئین کے آرٹیکل 61(4) کا استعمال کرتے ہوئے کارکی کو عبوری وزیراعظم مقرر کرنے، نئی کونسل کی سفارش کرنے اور انتخابات کا اعلان کرنے کی تجویز پیش کی۔’جن زی‘ کی منظور کی جانے والی5اہم شرائط میں نیپال کی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا،6سے12مہینے کے درمیان عام انتخابات کراکر جمہوریت کے نظام کو قائم کرنا، سول ملٹری حکومت قائم کرنا،پرانے سیاسی رہنماؤں اور پارٹی کی جائیدادوں کی چھان بین کے لیے ایک بااختیار عدالتی کمیشن بنانا اور’جن زی‘ تحریک کے دوران مظاہرین پر ہونے والے تشدد کی آزاد اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کرانا شامل ہیں۔ اس دوران نیپالی کانگریس، نیپالی کمیونسٹ پارٹی (ایمالے)، نیپالی کمیونسٹ پارٹی(ماؤوادی سینٹر)، نیپالی کمیونسٹ پارٹی یونائیٹڈ سماجوادی، جنتا سماجوادی پارٹی، جنمت پارٹی،لوک تانترک سماجوادی پارٹی اور ناگرک انمکتی پارٹی اور وکلا کی تنظیم بار ایسو سی ایشن نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے صدر کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس اقدام کو غیر آئینی،من مانا اور جمہوریت پر سنگین حملہ قرار دیا۔

عبوری حکومت کی وزیراعظم سشیلا کارکی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج سیاسی استحکام کو بحال کرنا اور ملک میں عام انتخابات کرانا ہے۔گزشتہ10برسوں میںایک درجن سے زیادہ وزرائے اعظم کے ذریعہ عہدہ سنبھالنے سے عوام کا یقین کمزور ہوا اور جمہوری ادارے دباؤ میں آئے۔ملک کو اقتصادی دقت، بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ نئی سرکار کو سیاسی تبدیلی سے نمٹنے کے علاوہ عوامی مفادات سے متعلق مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔سشیلا کارکی کاکہناہے کہ ان کی حکومت کا بنیادی مقصد منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔انہوں نے زیادہ دنوں تک اقتدار میں رہنے کے لیے نہیں،بلکہ آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے ذمہ داری سنبھالی ہے۔ نیپال میں ہوئے پرتشدد احتجاج کی جانچ کرائی جائے گی اور توڑپھوڑ کی وارداتوں میں ملوث واملاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس دوران سابق وزیراعظم کے پی شرما اولی کے خلاف جن زی مخالف مظاہروں کے دوران غلط فیصلے لے کر حالات بگاڑنے کا قصوروار مانتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔سشیلا حکومت ملک کے سیاسی حالات پر قابو پانے اور بروقت انتخابات کرانے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے،یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
jafrikanwal785@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS