ہندوستان کے پڑوس میں ایک اور حکومت: صبیح احمد

0

صبیح احمد

ہندوستان کے پڑوس میں ایک اور حکومت گر گئی ہے۔ اس بار یہ نیپال ہے، نئی دہلی کا تاریخی دوست۔ نیپال سے متصل ہندوستان کے سرحدی علاقے ہائی الرٹ پر ہیں۔ ہندوستان اور دیگر پڑوسی ملکوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟ نیپال کے پڑوسی ممالک میں بھی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ سے بھی مسلح ہے۔ جب حکومت عوامی مسائل حل نہیں کر پاتی تو لوگ آج کل اپنا غصہ حکمرانوں کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعہ نکالتے ہیں۔ وہ ان کی میمز بناتے ہیں، کارٹون شائع کرتے ہیں، طنزیہ جملے لکھتے ہیں اور تحقیر آمیز پوسٹرس بناتے ہیں۔ جب بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے ناراضگی بڑھی تو وہاں طلبا نے ان کے خلاف بغاوت کر دی جبکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا نے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے آپ کو متحد کیا۔ نیپال میں نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ طبقاتی تضادات کو تیز کیا۔ ایک طرف عوامی غربت اور دوسری جانب حکمرانوں کی عیاشی کو آشکار کیا۔ نیپال میں بڑے پیمانے پر ہونے والے پر تشدد مظاہروں نے گزشتہ سال کے بنگلہ دیش کے احتجاج کی یاد تازہ کر دی ہے۔

بہرحال اہم سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات، سیاست دانوں پر حملوں اور مظاہرین اور حکومتی فورسز کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے بعد اب حالات معمول پر آنے لگے ہیں۔ اب نیپال میں مستقل حکومت کی جگہ عبوری حکومت نے لے لی ہے جس کی سربراہی نیپال کی سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کر رہی ہیں۔ 13 ستمبر کو انہوں نے نیپال کی عبوری وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا ہے۔ انہیں نئے الیکشن کرانے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ کارکی نے عبوری وزیراعظم کے طور پر حلف لینے کے بعد وعدہ کیا ہے کہ وہ 6 ماہ کے اندر اقتدار نو منتخب پارلیمنٹ کو سونپ دیں گی۔ جنریشن زی (جن-زیڈ) نے پہلے بنگلہ دیش کے سیاسی افق پر ہلچل مچائی اور اب نیپال میں اس نے حکومت کا دھڑن تختہ کیا۔ سوشل میڈیا پر لگنے والی پابندی کی فوری وجہ سے جو احتجاجی طوفان اٹھا، وہ نہ صرف وزیراعظم کے پی اولی اور ان کی کابینہ کو بہا کر لے گیا بلکہ اس نے کئی حکومتی اراکین کو جان بچا کر بھاگنے پر مجبور بھی کر دیا۔ مظاہرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جس کی وجہ سے اس احتجاج کو جنریشن زیڈ کا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ وہ آج کے نوجوان ہیں جن کی تعریف عام طور پر 1997 اور 2012 کے درمیان پیدا ہونے والوں کے طور پر کی جاتی ہے۔ بظاہر مظاہرے اس لیے شروع ہوئے کیونکہ حکومت نے عوامی پلیٹ فارم بند کرنے کی کوشش کی جہاں غیر یقینی حالات سے دوچار یہ نسل ملازمت، دوستی اور اپنی آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 40 سال کی عمر کے افراد آبادی کا تقریباً 43 فیصد ہیں اور فی کس جی ڈی پی صرف 1447 ڈالر ہے۔ نیپال کے نوجوانوں میں بے روزگاری اور دولت کے فرق پر مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے شائع کردہ نیپال لیونگ اسٹینڈرڈ سروے 2022-23 کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 12.6 فیصد تھی۔ حکومت کی جانب سے 26 غیر رجسٹرڈ پلیٹ فارمس تک رسائی بند کرنے کے بعد فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سمیت متعدد سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ٹک ٹاک پر عام نیپالیوں کی جدوجہد کو سیاست دانوں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنے والے ویڈیوز وائرل ہوئے جنہیں ٹک ٹاک پر بلاک نہیں کیا گیا تھا۔ مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے ہیش ٹیگ #NepoBaby ملک میں ٹرینڈ کر رہا تھا، جس کا مقصد مقامی سیاست دانوں کے بچوں کے غیر معمولی طرز زندگی پر تنقید کرنا اور بدعنوانی کو للکارنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مظاہرین کا غصہ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر پابندی اور حکومت کی بدعنوانی کو لے کر نہیں تھا، بلکہ اس تحریک میں جس چیز نے آگ میں گھی کا کام کیا، وہ ’نیپو بے بیز‘ (سیاستدانوں کے بچوں) کی پرتعیش زندگی تھی۔ ایک طرف جہاں نیپال غربت، بے روزگاری، مہنگائی کا شکار ہے، وہیں سیاستدانوں کے بچے بیرون ملک پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ نیپال کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر PoliticiansNepoBabyNepal اور NepoBabies جیسے ہیش ٹیگ چلائے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ نیپال کے سیاستدانوں کے بچے کس طرح پرتعیش زندگی گزارنے کے لیے اپنے ٹیکس کی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس پابندی کو آزادیٔ اظہار رائے کے لیے خطرہ سمجھا جبکہ دوسروں کو خدشہ تھا کہ اس سے بیرون ملک کام کرنے والے پیاروں کے ساتھ رابطے میں خلل پڑے گا۔ مالی سال 2023-24 میں 741,000 سے زیادہ نیپالیوں نے روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ دیا تھا۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران اس نسل جنریشن زی نے اس خطہ میں سیاسی احتجاج میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش میں طلبا نے سرکاری ملازمتوں کے لیے متنازع کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں ملک کی وزیراعظم فرار ہو گئیں۔ اس سے قبل 2022 میں سری لنکا میں ہونے والی بغاوت نے اس وقت کے صدر گوٹابایا راجپکشے کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ہندوستان کے قریبی پڑوس میں نیپال تیسرا ملک بن گیا ہے جہاں حالیہ برسوں میں ایک پرتشدد بغاوت کی وجہ سے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور نیپال کی طرح ان کے پڑوسی ملکوں میں بھی بہت غربت ہے۔ کروڑوں لوگ غریب ہیں، لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، لوگوں کے پاس رہنے کے لیے مناسب گھر نہیں ہے، بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔ تو کیا ان ممالک کے لیے یہ تشویش کی بات نہیں ہے؟ اگرچہ بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی جنوبی ایشیا میں ہندوستان کے قریبی پڑوسی ہیں، لیکن تاریخی طور پر عوام سے عوام، اقتصادی اور تزویراتی تعلقات کی وجہ سے کاٹھ منڈو کے ساتھ دہلی کے رشتے خاص ہیں۔ نیپال 5 ہندوستانی ریاستوں اتراکھنڈ، اتر پردیش، سکم، بہار اور مغربی بنگال کے ساتھ 1,750 کلومیٹر (1,080 میل) سے زیادہ کی کھلی سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔ اس لیے سرحد پار ہونے والی پیش رفت پر دہلی کی گہری نظر ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اولی کو دہلی کے منصوبہ بند دورہ سے صرف ایک ہفتہ قبل استعفیٰ دینا پڑا۔ نیپال کے اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے ملک میں کوئی بھی عدم استحکام ہندوستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس بدامنی کا ہندوستان میں مقیم نیپالی باشندوں پر بھی اثر پڑنے والا ہے۔ لاکھوں کی تعدادمیں نیپالی ہندوستان میں کام کرتے یا رہتے ہیں۔ نیپال بنیادی طور پر ہندو اکثریتی ملک ہے اور سرحد پار کمیونٹیز کے قریبی خاندانی تعلقات ہیں۔ لوگ بغیر ویزا یا پاسپورٹ کے دونوں ممالک کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ نیپال کے لوگ بھی 1950 کے معاہدے کے تحت ہندوستان میں بغیر کسی پابندی کے کام کر سکتے ہیں – خطہ میں بھوٹان کے ساتھ یہ واحد ملک ہے جس کو یہ سہولت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نیپال کے 32,000 مشہور گورکھا فوجی دہائیوں پرانے ایک خصوصی معاہدہ کے تحت ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔کاٹھ منڈو ہندوستانی برآمدات، خاص طور پر تیل اور خوراک، پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ہندوستان اور نیپال کی سالانہ دو طرفہ تجارت کا تخمینہ $8.5bn (£6.28bn) ہے۔
اب جبکہ کاٹھ منڈومیں امن کی ایک ٹھنڈی سی لہر واپس آئی ہے، ہندوستان کو ایک نازک سفارتی ڈور پر سے ہو کر گزرنا پڑے گا، کیونکہ نیپال پر حکومت کرنے والی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں سے نیپالی مظاہرین بڑے ناراض ہیں۔ اور ہندوستان کے ان سب کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ ہمالیائی ملک کے اسٹرٹیجک محل وقوع کے پیش نظر ہندوستان اور چین دونوں ہی نیپال میں اثر و رسوخ کے لیے کوشاں ہیں، جس کی وجہ سے اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ دونوں ایشیائی طاقتیں نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں ہندوستان کی سفارتی صلاحیت کو سخت امتحان کا سامنا ہے۔

sasalika786@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS