نئی دہلی، (یو این آئی) : سپریم کورٹ نے منگل کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اتر پردیش سمیت متعدد ریاستوں کو نوٹس جاری کرکے ہدایت دی کہ وہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین پر پابندی لگانے کی درخواستوں پر چار ہفتوں کے اندر اپنا موقف پیش کریں۔
چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہریانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور دیگر ریاستوں سے ان درخواستوں پر جواب داخل کرنے کو کہا جہاں حکومت کی طرف سے بنائے گئے تبدیلی مذہب مخالف قوانین پر پابندی لگانے کی درخواست کی گئی ہے۔
بنچ نے مختلف ہائی کورٹس میں زیر التواء ان قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو بھی اپنے پاس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومتوں کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا اور چھ ہفتے کے بعد کیس کی اگلی سماعت طے کی ہے۔ جن قوانین کو سپریم کورٹ کو بھیجا گیا ہے ان میں ہماچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2019، مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن آرڈیننس 2020، اتر پردیش میں غیر قانونی تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 اور اتراکھنڈ میں اسی طرح کا ایکٹ شامل ہے۔ ان قوانین کا مقصد زبردستی یا فرضی تبدیلی مذہب کے واقعات کو روکنا تھا، لیکن مبینہ طور پر ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعہ ذاتی آزادی کی خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
عدالت عظمیٰ میں آج سماعت کے دوران این جی او سمیت مختلف فریقوں کی طرف سے پیش ہونے والے متعدد وکلاء نے دلیل دی کہ ان قوانین کو ‘مذہبی آزادی کے ایکٹ’ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن یہ اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگا رہے ہیں اور بین مذاہب شادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج سے کہا کہ وہ قانون میں ترمیم پر روک لگانے کی درخواستوں پر ریاستی حکومتوں کا جواب داخل کریں۔ بنچ نے ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی عرضداشت کو بھی ڈی ٹیگ کر دیا جس میں زبردستی اور دھوکہ دہی سے مذہب کی تبدیلی کے خلاف پورے ہندوستان میں یکساں قانون کی مانگ کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے 2020 میں تدبیلی مذہب سے متعلق قوانین کے خلاف سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کی درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا۔ اس کے بعد، جمعیۃ علماء ہند نے عدالت عظمیٰ میں ایک ٹرانسفر پٹیشن دائر کی جس میں مختلف ریاستوں کے ذریعہ بنائے گئے تبدیلی مذہب سے متعلق قوانین کے خلاف چھ ہائی کورٹس میں زیر التواء مقدمات کی منتقلی کا مطالبہ کیا گیا۔