یروشلم،(یو این آئی): مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے شہر کے نیچے ایک سرنگ کے افتتاح میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی شرکت نے بڑے پیمانے پر تنازع اور سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ سرنگ تقریباً 600 میٹر طویل ہے جو سلوان کی وادی حلوہ محلے سے شروع ہوکر مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار (دیوارِ براق) کے قریب جا کر ختم ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی تسلط اور اسے یہودیانے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
مصر کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر جنرل محمد رشاد نے العربیہ اور الحدث کو بتایا کہ یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی پالیسیوں کی کھلی حمایت ہے۔ ان کے مطابق یہ عمل اقوام متحدہ کی قرارداد 478 سمیت ان تمام فیصلوں کے منافی ہے جو مشرقی بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہیں اور اسرائیلی الحاق کو کالعدم مانتے ہیں۔ رشاد کے مطابق روبیو کی شمولیت واشنگٹن کی اسرائیل کے لیے واضح حمایت ظاہر کرتی ہے اور یہی حمایت اسرائیل کو اپنی غیرقانونی کھدائیوں اور منصوبوں پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس امریکی پشت پناہی کے بعد نیتن یاہو سنجیدگی سے مغربی کنارے کے کچھ حصے ضم کرنے اور “گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا سوچ رہے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد مہران نے بھی کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی واشنگٹن کی اس خاموش رضامندی کی عکاس ہے جو اسرائیلی قبضے کو تقویت دیتی ہے، حالانکہ امریکہ بطور سلامتی کونسل کے مستقل رکن ان قراردادوں کا پابند ہے جو مشرقی بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح کی سرگرمیاں دراصل شہر کو یہودیانے اور اس کی عرب و اسلامی شناخت مٹانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹر مہران نے زور دیا کہ یہ اقدامات ہیگ 1907 اور جنیوا کنونشن 1949 کی خلاف ورزی ہیں، جو قابض طاقت کو مقبوضہ علاقوں میں مستقل تبدیلی یا ثقافتی و مذہبی ورثہ تباہ کرنے سے روکتی ہیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ یہ سرنگ مسجد اقصیٰ اور اسلامی مقامات کے ڈھانچے کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر مہران نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان خلاف ورزیوں کو روکے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ کا جانب دار رویہ امن عمل میں اس کے ثالثی کردار کو ناکام بناتا ہے اور اسرائیل کو مزید خلاف ورزیوں پر اُکسائے گا۔ انھوں نے عالمی برادری سے اس اقدام کی مذمت اور ذمے داروں کے احتساب کا مطالبہ کیا، جبکہ عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ سخت مؤقف اپنائیں، سفارتی و اقتصادی دباؤ بڑھائیں اور بیت المقدس اور اس کے مقدس مقامات کو اسرائیلی منصوبوں سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔