پڑوس کی آگ سے اُٹھتادھواں کہیں چنگاری نہ بن جائے: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

ہندوستان کے چاروں طرف آگ ہی آگ پھیلی ہے۔ دراصل ہندوستان کے پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار، نیپال، بھوٹان، تبت، چین اور مالدیپ ہیں۔ ان میں سے دو ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر ممالک عوامی بغاوت کی زد پر ہیں۔ سر کاروں کے تختے پلٹے جا چکے ہیں۔ عوامی جم غفیر نے سیاسی حکمرانوں کو معزول کیا، پارلیمنٹ، ایوانِ صدارت اور مختلف وزارتوںکو تہس نہس کیا اور نذر آتش کیا۔ہر طرف بد امنی اور افرا تفری کا عالم ہے۔ پڑوس کی یہ آگ ہندوستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمسائے کی آگ کہیں ہم تک نہ آجائے۔دراصل جب کسی بھی ملک کا نو جوان بے روزگارہوتا ہے۔مہنگائی عوام کی امیدوں پر پانی پھیرتی ہو، حکمرانوں کے عیش و عشرت ہر حال میں جاری ہوں،رشوت ستانی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہو،اعلیٰ عہدوں پر کسی ایک جماعت،برادری یا ذات کا قبضہ ہو،عدالتیں اور پولیس انصاف نہ کرے، تب کسی بھی ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہی ان تمام ممالک میں ہوا۔

ہندوستان کا پڑوسی ملک نیپال اس وقت سلگ رہا ہے۔ وہاں عوامی بغاوت ہو ئی ہے۔باغی نو جوانوں نے وزرا، وزیراعظم اور بہت سے لوگوں کو گدی سے اتار دیا ہے۔ملک کے وزیراعظم اولی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔سناہے وہ نیپال سے فرار کی راہیں تلاش رہے ہیں۔پورے ملک میں حالات بے قابو ہیں۔آتش زنی،ماردھاڑ اور عمارتوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔عوام کا غم و غصہ ساتویں آسمان پر ہے۔ نیپال میں بد عنوانی عروج پرہے۔ نیپال کے معزول وزیراعظم اولی کا کہنا ہے کہ نیپال میں جو کچھ ہوا ہے، وہ امریکہ اور بھارت کے اشارے اور شہ پر ہوا ہے، جبکہ نیپالی نوجوان بڑھتی مہنگائی،بے روز گاری اور رشوت ستانی کو اس کی وجہ بتا تے ہیں۔وزرا اور وزیر اعظم کسی نہ کسی اقتصادی غبن میں ملوث ہیں۔

تین چار دن کی لا قانونیت اور عوامی غم و غصے کے اظہار کے بعد اب نیپال میں امن وامان قائم ہوتا جا رہا ہے۔ عبوری حکومت کا سر براہ کون ہو گا؟ کئی دن رات اسی میں صرف ہوگئے۔اس سلسلے میں کئی نام آئے۔ان پر مختلف پہلوئوں سے غور ہوا، بالآخر سشیلا کارکی کو سربراہ یعنی نیپال کا وزیراعظم بنا دیا گیا ہے،جنہوں نے پہلے اقدام میں نیپال کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا ہے اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگلے سال یعنی 5مارچ کو عام انتخابات ہو ں گے۔یہ سشیلا کارکی کون ہیں؟ اچانک نیپال سے نکل کر کیسے پوری دنیا میں مشہور ہوگئیں؟
سشیلا کارکی نیپال کی رہنے والی ایک خاتون ہیں۔ ان کی پیدائش 7جون1952کو ہوئی۔ انہوں نے تری بھون یونیورسٹی اور بی ایچ یو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔وہ ملک کے سپریم کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس بنیں۔ انہوں نے 11 جولائی2016 سے 6جون2017 تک اس عہدے پر رہتے ہوئے کئی اہم فیصلے لیے اور نئی نسل کے لیے رول ماڈل ثابت ہوئیں۔جنریشن زیڈ کی رہنمائی کی۔ موجودہ دور انحطاط میں سشیلا کارکی نیپال کی وزیراعظم بنیں۔نیپال کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک کی باگ ڈور خاتون نے سنبھالی۔انہیں نیپال کے صدر رام چندر پوڈیل نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف دلایا۔ سشیلا کارکی نے اس موقع پر کہا کہ وہ اس عہدے پر تفریح کر نے نہیں آئی ہیں بلکہ وہ امن و امان اور ایمان داری سے انتخاب کرائیں گی۔وہ سرکار چلانے یا اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند نہیں ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیپال میں اس قسم کے حالات کیوں بنے؟ اور یہ جین-زیڈ کیا ہے ؟ یہ کوئی سیاسی،سماجی یا تہذیبی تنظیم ہے؟ نہیں،بلکہ یہ ایک نسل ہے،جس کو دنیا میں جی-زیڈ کانام دیا گیا ہے۔نیپال میں اس نسل کا زور زیادہ ہے۔دراصل نیپال میں ایک ایسی نسل پروان چڑھی ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر نا جانتی ہے۔یہ اپنا نفع و نقصان سمجھتی ہے۔اسے کسی لالچ میں نہیں پھا نسا جا سکتا۔یہ نئی نسل ہے۔اس میں سے زیادہ تر پڑھے لکھے اور وطن نثار ہونے والے نوجوان ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کی پیدائش 1997 اور 2012 کے درمیان ہوئی۔2025 تک اس نسل میں دنیا کے تقریباً 30 فیصد نوجوان شامل ہوچکے ہیں۔اس نسل نے ملک میں پھیلتے کرپشن کو دیکھا۔بے روزگاری کو جھیلا۔وزیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کی عیش پرستی دیکھی۔ یہ سب دیکھ کر اس گروپ نے ملک میں بغاوت کی اور حکومت کا تختہ پلٹ کر دیا۔یہ الگ بات ہے اس کام میں انہیں تشدد کا سہارا لینا پڑا۔ملک کی بڑی بڑی عمارتوں کو نقصان پہنچا،توڑپھوڑ اور آتش زنی ہوئی۔ لوگوں کا غصہ سرکار، وزرا، وزیراعظم اور بہت سے اعلیٰ عہدیداروں پر تھا۔بات چیت کے کئی دور کے بعد محتر مہ سشیلا کارکی کے نام پر سب متفق ہو ئے۔ملک کی پارلیمنٹ کو تحلیل کیا گیا اور نئے انتخاب جلد ہی کرائے جا نے کا اعلان ہوا۔سابق وزیراعظم اولی نے تو بھارت سے اپنے رشتوں کو خراب کر لیا تھا مگر موجودہ وزیر اعظم سشیلا کارکی کا مشن ہندوستان سے خوشگوار تعلقات بحال کرنا اور بے داغ انتخاب کرانا ہے۔ ساتھ ہی ملک کے نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنا بھی ہے۔

بنگلہ دیش بھی اس دور سے گزر چکا ہے۔وہاں بھی غیرمطمئن طلبا نے بغاوت کا علم بلند کیا۔سرکار کو اکھاڑ پھینکا۔ ملک کی اس وقت کی وزیراعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ شیخ حسینہ سرکار سے ہندوستان کی مودی حکومت کے دوستانہ مراسم تھے۔اسی لیے جب بنگلہ دیش کے حالات ابتر ہوئے تو شیخ حسینہ فرار ہوکر ہندوستان آگئیں۔ مودی سر کار نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور انہیں غازی آباد کے ہنڈن ایئر اسٹیشن میں پناہ دی۔دوسری طرف بنگلہ دیش میں افرا تفری اور لا قانونیت کا راج بڑھتا گیا۔عبوری حکومت بنی اور محمد یونس اس کے سر براہ بنے۔حالات آہستہ آہستہ نارمل ہوتے گئے۔امن و امان قائم ہو تا گیا۔بنگلہ دیش سے ہندوستان کے رشتوں میں شیخ حسینہ کو لے کرکا فی تلخی آئی۔وہاں کی اقلیتوں پر عوام کے مظالم بڑھے۔ابھی تک بنگلہ دیش میں امن و امان کی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے۔وہاں کبھی بھی بدامنی پھیل جاتی ہے۔وہاں ابھی تک عام انتخابات نہیں ہو پا ئے۔عوام کے ایک بڑے حلقے میں یو نس سر کار کے خلاف بھی غم و غصے کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ شیخ حسینہ کی پارٹی اور ان کے والد شیخ مجیب کی مخالفت آہستہ آہستہ کم ہو تی جا رہی ہے۔

یہی نہیں سری لنکا اور میانمار میں بھی عوامی بغاوت ہوچکی ہے۔پاکستان میں بھی کبھی بھی بد امنی پھیل جاتی ہے۔عمران خان جیل میں ہیں۔پاکستانی حکومت امریکہ کے بہت قریب ہے۔اس کے چین سے بھی بڑے خوشگوار تعلقات ہیں۔کئی پروجیکٹ دونوں مل کر کر رہے ہیں۔ہند-پاک جنگ میں بھی چین پاکستان کی مدد کر چکا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب سے وزیراعظم مودی کا دورۂ چین ہوا ہے، چین کے رخ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ دراصل ادھر ایشیا میں چین-روس اور ہندوستان جب سے ملے ہیں، امریکہ کی راتوں کی نیندیں غائب ہوگئی ہیں۔ امریکہ نے ہندوستان کو الگ کرنے کے لیے اضافی ٹیرف لگا یا،لیکن ہندوستان جھکا نہیں اور اس نے دوسرے متبادل تلاش کر نے شروع کر دیے۔آخر کار اب امریکہ جھکنے لگا ہے۔مگر نیپال کے حالات سے ہماری سرکار کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔یہ سچ ہے کہ ہندوستان آبادی کے معاملے میں دنیا کا سب بڑا ملک ہو گیا ہے۔ اس نے چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نمبر ون پر قبضہ کرلیا ہے،لیکن بہت سارے چیلنج میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بہت سارے مسائل منھ پھاڑے کھڑے ہیں۔بے روزگاری، مہنگائی، معاشی بدحالی، کسانوں کے معاملات، اقلیتوں کی حفاظت، قانونی بر تری،کسی ایک پارٹی کی مخالفت کو ملک کے خلاف بغاوت سمجھنا،الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر اداروں کی جانبداری،بڑھتی تعلیم یافتہ بے روز گاری جیسے مسائل کہیں خطر ناک صورتِ حال اختیار نہ کرلیں۔ پڑوسی ممالک کی بدلتی سیاسی صورتِ حال اور وہاں کی سلگتی آگ کا دھواں ہمارے یہاں بھی آسکتا ہے۔یہ دھواں کہیں چنگاری نہ بن جائے۔ہماری حکومت اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کی ہر طرح حفاظت کریں تاکہ یہاں امن و امان قائم رہے۔

aslamjamshedpuri@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS