جمہوریت پر لاٹھی کا پہرہ

0

ہندوستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں جمہوریت کا حسن رفتہ رفتہ مسخ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے بدلے میں جو نظام ابھر رہا ہے، وہ محض اکثریت کی طاقت اور اقتدار کی من مانی کا عکس ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی حکومت مخالف آوازوں کو دبانے اور احتجاج کے ہر دروازے پر تالے ڈالنے کی روش پر گامزن ہے۔ اس الزام کو ملک کی کم از کم پانچ ریاستوں میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات ٹھوس شہادتوں کے ساتھ سچ ثابت کر رہے ہیں۔
اترپردیش میں وزیراعظم نریندر مودی کے کل وارانسی کے دورے سے قبل ہی کانگریس لیڈروں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ ریاستی کانگریس صدر اجے رائے کو صبح 11:30 بجے پریس کانفرنس سے خطاب سے پہلے ہی پولیس نے گھر میں محصور کر دیا۔ اجے رائے نے اس جبر کا ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا تاکہ یہ ریکارڈ رہے کہ کس طرح اپوزیشن کی زبان بند کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔

اسی طرح جموں و کشمیر میں عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے مہراج ملک کی گرفتاری کے خلاف آواز بلند کرنے پہنچے عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ کو بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ مزید ستم یہ کہ جب نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ ان سے ملنے پہنچے تو پولیس نے انہیں گیسٹ ہائوس کے دروازے پر ہی روک دیا۔ وہ منظرآج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے،جہاں ایک رکن پارلیمان لوہے کی ریلنگ پر چڑھ کر سابق وزیراعلیٰ سے بات کرنے پر مجبور ہے اور پولیس کے پاس کوئی جواب نہیں کہ عوام کے نمائندوں کو کیوں نہیں ملنے دیا جا رہا۔ فاروق عبداللہ نے بجا کہا کہ ایک طرف ریاست دہشت گردانہ حملوں اور قدرتی آفات کا شکار ہے اور دوسری طرف حکومت غیر جمہوری رویوں سے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔

اسی دوران پلوامہ کے ایم ایل اے وحیدالرحمن پارا کو اسمبلی سیکریٹریٹ نے وجہ بتائو نوٹس بھیجا کیونکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ملک کی پی ایس اے کے تحت گرفتاری دراصل اسمبلی کی توثیق ہے۔ سیکریٹریٹ نے اس بیان کو ادارے کے وقار پر حملہ قرار دیا اور استحقاق کی خلاف ورزی کی کارروائی کی دھمکی دی۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جمہوریت کے محافظ ادارے بھی اب اقتدار کے دبائو کے سامنے غیر جانبدار نہیں رہے۔
لداخ میں ماحولیاتی کارکن سونم وانگ چک نے 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت تحفظ دینے کے وعدے کو پورا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ وہی وعدہ ہے جو بی جے پی نے انتخابات کے وقت بڑھ چڑھ کر کیا تھامگرآج تک محض کاغذی دعویٰ بن کر رہ گیا۔

اسی طرح آسام میں موران اور کوچ راج بنشی برادریوں نے دھوبڑی اور تنسکیا اضلاع میں احتجاجی جلوس نکالا۔ ان کا مطالبہ شیڈول ٹرائب کا درجہ اور چھٹے شیڈول کے تحت خودمختاری کا تھا۔یادرہے کہ یہ وہی مطالبہ ہے جسے وزیراعظم مودی نے 2016 میں پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ احتجاج کے دوران سی آر پی ایف نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا،خواتین اور طلبا تک کو نہیں بخشا گیا،پچاس سے زائد افراد زخمی ہوئے اور حالات بدترین ہوگئے۔ مظاہرین نے 15 ستمبر سے ریاست گیر معاشی ناکہ بندی کی دھمکی دی ہے،جو اس ناراضگی کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
ادھر بہار میں محکمہ ریونیو اینڈ لینڈ ریفارمز کے 9000 کنٹریکٹ ورکرز نے اپنی برطرفی اور بقایا اجرت کی ادائیگی کیلئے احتجاج کیا تو ان پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا۔ یہ سب واقعات مل کر ایک ہی تصویر پیش کرتے ہیں کہ ملک میں جمہوری اختلاف کی جگہ لاٹھی تنتر مسلط کیا جا رہا ہے۔

ان تمام مناظر کو اکٹھا کر کے دیکھیں تو ایک ہی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ عوامی احتجاج، اپوزیشن کی آواز، ماحولیاتی تحریک،نسلی گروہوں کے مطالبے یا مزدوروں کی شکایات سب کچھ لاٹھیوں اور گرفتاریوں سے کچلا جا رہا ہے۔ میڈیا کی خاموشی اس جبر کو مزید مضبوط کرتی ہے،مگر عوامی ناراضگی کی آگ دبانے سے بجھتی نہیں اور جب یہ بھڑکتی ہے تو اقتدار کے ایوانوں کو لرزا دیتی ہے۔ حکومت جتنا زیادہ جبر کرے گی،اتنی ہی شدت سے یہ ناراضگی ابھرے گی۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS