نیپال ایک بار پھر سیاسی بھونچال کی زد میں ہے۔ 8 ستمبر 2025 کو جو کچھ کاٹھ منڈو کی سڑکوں پر ہوا،وہ محض ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ ایک پوری نسل کا اعلان بغاوت تھا۔ سوشل میڈیا پر پابندی کے سرکاری فیصلے نے چنگاری کا کام کیا اور لمحوں میں یہ چنگاری شعلہ بن گئی۔ اسکول یونیفارم پہنے لڑکے اور لڑکیاں،ہاتھوں میں موبائل،آنکھوں میں غصہ اور لبوں پر نعرے لیے پارلیمنٹ کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ یہ تصویر ایک ایسے لاوے کی ہے جو برسوں کے جبر، بدعنوانی اور مایوسی کے نیچے ابل رہا تھا۔
صرف ایک دن میں21 نوجوانوں کی جانیں گئیں، تقریباً 400 زخمی ہوئے،پولیس نے آتش گیر گولیاں،آنسو گیس،ربڑ کی گولیاں سب کچھ آزمایااور کاٹھ منڈو سمیت کئی شہروں میں کرفیو لگانا پڑا۔ وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے ان ہلاکتوں کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور اگلے ہی دن وزیراعظم کے پی شرما اولی بھی اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر سے پابندی تو اٹھالی گئی،لیکن عوام کا غصہ ابھی تک سرد نہیں ہوا۔ یہ ایک کھلا اعلان ہے کہ نئی نسل اب محض تماشائی نہیں رہے گی۔
یہ نسل،یعنی Gen-Z،وہ ہے جو بادشاہت کے ظلم و ستم کے قصے کتابوں میں پڑھتی ہے مگر جمہوریت کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ جمہوریت جو بار بار ٹوٹے ہوئے اتحادوں،خود غرض سیاست دانوں اور بدعنوانی کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے۔ نیپال کی فی کس آمدنی صرف 1,456 امریکی ڈالر ہے،جبکہ سری لنکا 3,342 اور بنگلہ دیش 2,688 ڈالر کے ساتھ اس سے کہیں آگے ہیں۔ مہنگائی 7.1 فیصد ہے،روزگار کی کمی عام ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق نیپال بدعنوانی کے انڈیکس میں 180 ممالک میں 107 ویں نمبر پر ہے۔ 84 فیصد عوام بدعنوانی کو سب سے بڑا عذاب سمجھتے ہیں۔ ایسے میں جب وزیروں کے بیٹے لگژری گاڑیوں میں گھومیں اور سوشل میڈیا پر ان کی غیر ملکی تفریحی تصویریں وائرل ہوں تو ’’ہمارا ٹیکس،آپ کا مال‘‘ جیسے نعرے ناگزیر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ#NepoKid ٹرینڈ نیپال کے غصے کی علامت بن گیا۔ نوجوان یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر عام آدمی روزی روٹی کیلئے پس رہا ہے تو حکمراں طبقہ عیش و عشرت میں کیوں ڈوبا ہوا ہے؟ یہی تضاد اس تحریک کوآگ لگانے والی اصل چنگاری ہے۔یہ سچ ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی رجسٹریشن کے بہانے لگائی تھی۔ دعویٰ کیا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر اور جھوٹی خبروں کو روکنا مقصد ہے۔ لیکن Gen-Z نے اسے اپنی آزادی پر ڈاکہ سمجھا۔ ان کیلئے فیس بک،انسٹاگرام اور یوٹیوب محض وقت گزاری نہیں بلکہ شناخت،روزگار اور سماجی بیداری کے اوزار ہیں۔ سیاحت پر مبنی معیشت میں سوشل میڈیا پر پابندی کا مطلب روزگار چھیننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’کرپشن پر پابندی لگائو، سوشل میڈیا پر نہیں‘‘ جیسانعرہ بھی لگا۔
یہ بغاوت صرف نیپال تک محدود نہیں۔ خطے کا نقشہ بدل رہا ہے۔ سری لنکا میں 2022 کی اراگالیا تحریک نے راجا پکسے خاندان کو اکھاڑ پھینکا۔ بنگلہ دیش میں 2024 کی طلبا تحریک نے شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا اور اب نیپال بھی اسی قطار میں آ کھڑا ہوا۔ تینوں تحریکوں میں کرپشن، مہنگائی اور عوامی غصہ مشترک ہے۔ نیپال کی ہلچل ہندوستان کے بہار انتخابات پر اثر ڈال سکتی ہے،جبکہ چین کی مشترکہ فوجی مشقیں اور پاکستان و بنگلہ دیش کی بڑھتی سرگرمیاں اس بحران کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف داخلی لاوا ہے یا اس کے پیچھے عالمی شطرنج بھی بچھی ہوئی ہے؟
نیپال کی تاریخ بار بار گواہ رہی ہے کہ اقتدار کی بساط سڑکوں پر الٹتی ہے۔ 1990 کا ’’جن آندولن اوّل‘‘ بادشاہ کو جھکنے پر مجبور کرگیا،2006 کا ’’جن آندولن دوم‘‘ بادشاہت کے خاتمے پر منتج ہوا اور 1996 سے 2006 تک مائو نواز بغاوت میں17ہزار لوگ مارے گئے۔ اب 2025 میں ایک نئی بغاوت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جسے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانے کیلئے ہر بار لہو دینا پڑتا ہے۔
لیکن سوال وہی ہے کہ کیا یہ لہو ایک نئی صبح کا پیش خیمہ ہے یا پھر ایک اور بحران کا آغاز؟ دنیا کے تجربات بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی بغاوتیں فوری دھماکہ تو کرتی ہیں،مگر پائیدار استحکام کم ہی لاتی ہیں۔ مصر کی بہار سے لے کر سری لنکا کی تحریک تک یہی سبق ملتا ہے کہ جب تک ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہوں،نوجوانوں کا غصہ نئے زخم کھول دیتا ہے۔
آج نیپال کے سامنے یہی کڑا امتحان ہے۔ اگر یہ ملک اپنے نوجوانوں کو سنے،ان کی توانائی کو قومی تعمیر میں بدلے تو شاید ایک نیا نیپال ابھر سکتا ہے۔ لیکن اگر اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں نے ایک بار پھر اس غصے کو اپنی کرسیوں کی بندر بانٹ میں ضائع کیا تو تاریخ ایک اور سیاہ باب رقم کرے گی۔ ابھی جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے،وہ محض آغاز ہے۔ اصل فیصلہ ان ہاتھوں میں ہے جن میں موبائل فون ہیں اورآنکھوں میں ایک نئے مستقبل کا خواب۔
edit2sahara@gmail.com