مودی کا چین دورہ: امکانات، خدشات اور عالمی اثرات: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

وزیراعظم نریندر مودی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین پہنچے تھے، لیکن صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی دو طرفہ گفتگو کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ثابت ہوئی۔ اس ملاقات سے نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو نئی توانائی ملے گی بلکہ عالمی اور علاقائی حالات پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ دراصل ہند و چین تعلقات کو نارمل کرنے کا عمل گزشتہ سال اکتوبر میں ہی شروع ہو گیا تھا جب قازان میں دونوں سربراہان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد وزیر خارجہ اور قومی سلامتی مشیر کی سطح پر مذاکرات ہوئے جن میں سرحد پر کشیدگی، غیر متوازن تجارت، فضائی خدمات، ویزا کی بحالی اور مستقبل کے دو طرفہ تعلقات جیسے موضوعات پر بات ہوئی۔ چھوٹی سطح پر اس طرح کے مذاکرات نے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جس سے مثبت نتائج کی امید پیدا ہوئی۔

عالمی تناظر میں بھی یہ ملاقات غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کے باعث عالمی اقتصادی حالات تیزی سے بدل گئے ہیں اور اس کا اثر ہند-امریکہ تعلقات پر بھی پڑا ہے۔ ایسے میں پوری دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز تھیں کہ ہندوستان اور چین جیسی دو بڑی طاقتیں کس گرمجوشی کے ساتھ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر بات چیت کرتی ہیں۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ مودی اور شی جن پنگ نے توقعات کو مایوس نہیں کیا۔ اجلاس کے بعد دونوں ممالک کے بیانات سے یہی تاثر ملا کہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔یہ درست ہے کہ اس ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا، تاہم دونوں ممالک نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ باہمی تعلقات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ گلوان جھڑپ کے بعد سرحد پر جو کشیدگی بڑھی تھی، اسے ختم کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے اور وہاں امن و استحکام بحال ہو رہا ہے۔ یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں اور سرحد پر حالات کے سدھرنے نے دونوں ملکوں کو تعلقات بہتر بنانے کی طرف راغب کیا ہے۔

تاہم ابھی کئی مسائل چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اول، اگرچہ باہمی اعتماد کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں لیکن مکمل اعتماد قائم نہیں ہوپایا ہے۔ دوم، سرحد پر امن و استحکام بحال ضرور ہوا ہے مگر اصل مسئلہ یعنی سرحدی تنازع کا حل ہونا باقی ہے۔ قومی سلامتی مشیر اور خصوصی نمائندوں کی سطح پر جو گفتگو جاری ہے، اسے حتمی نتیجے تک پہنچنا لازمی ہے۔ ہندوستان نے واضح کر دیا ہے کہ سرحد پر امن و استحکام دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، جبکہ چین سرحدی تنازع کو نسبتاً کم اہمیت دے کر دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین فوری طور پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے جبکہ نئی دہلی احتیاط کے ساتھ قدم بڑھانے کی خواہش مند ہے۔

چین نے ہندوستان کے اس مؤقف سے اتفاق کیا کہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تین پہلو بنیادی ہیں: باہمی اعتماد، باہمی احترام اور باہمی حساسیت۔ اس ملاقات سے یہ پیغام بھی ملا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو حریف نہیں بلکہ معاون کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرمایہ کاری بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا ہے، لیکن اعتماد کی اصل بنیاد مستقبل میں سرحدی حالات اور خصوصی نمائندوں کی بات چیت پر منحصر ہوگی۔ چونکہ اس وقت برکس کی صدارت ہندوستان کے پاس ہے اور اگلا اجلاس ہندوستان میں ہوگا، مودی نے شی جن پنگ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی ہے، جس سے اگلے سال دونوں سربراہان کی ایک اور ملاقات متوقع ہے اور تعلقات کو نئی سمت ملنے کا امکان ہے۔

ہند-چین تعلقات میں ایک اہم پہلو پاکستان بھی ہے۔ اگرچہ جاری بیانات میں اس کا ذکر نہیں آیا، لیکن دہشت گردی پر خصوصی طور پر بات ہوئی۔ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ کسی تیسرے ملک کے نظریے سے ان کے تعلقات متاثر نہ ہوں۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ چین اس کے امریکہ سے تعلقات کو درگزر کرے اور چین کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ہند-چین رشتوں پر اثرانداز نہ ہوں۔ تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصلاح کا یہ عمل طویل اور پیچیدہ ہوگا جس میں نشیب و فراز بھی آئیں گے۔

ایس سی او اجلاس میں وزیراعظم مودی نے ہندوستان کا نظریہ پیش کرتے ہوئے سلامتی، رابطہ اور مواقع کو بنیادی ستون قرار دیا۔ انہوں نے کنیکٹیوٹی پر زور دیتے ہوئے چابہار بندرگاہ اور بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) کو آگے بڑھانے کی بات کی۔ ان کا سب سے اہم پیغام دہشت گردی کے حوالے سے تھا، جہاں انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ دوہرا معیار نہ اپنائیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایس سی او چارٹر میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مضبوطی سے شامل کیا گیا ہے۔

مودی نے اس موقع پر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری ظلم و ستم اور بے گناہ شہریوں کی نسل کشی کی کھل کر واضح الفاظ میں مذمت نہیں کی۔ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی وسائل کی فراہمی وقتی طور پر بند کردے تاکہ انسانیت کی حمایت کا واضح پیغام جائے۔ یوکرین جنگ کے معاملے پر ہندوستان نے اپنی پوزیشن دوہراتے ہوئے کہا کہ اس کا حل صرف مذاکرات سے نکل سکتا ہے۔
یہ بھی خوش آئند ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن دسمبر 2025 میں ہندوستان آئیں گے۔ روس کے ساتھ ہمارا قدیم رشتہ اگر مزید مضبوط ہوتا ہے تو یہ برکس کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا کیونکہ یہ تنظیم اس وقت ایک مضبوط متبادل عالمی ڈھانچے کے طور پر ابھر رہی ہے۔ اس تناظر میں وہ تصویر بھی خاصی اہم ہے جسے خود وزیراعظم مودی نے ٹویٹ کیا ہے، جس میں وہ شی جن پنگ اور پوتن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ روس، چین اور ہندوستان آنے والے دنوں میں عالمی نظام کو نئی سمت دینے کے خواہش مند ہیں۔

آج کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، طاقت کے مراکز مغرب سے مشرق کی طرف کھسک رہے ہیں۔ ایسے وقت میں اگر ہندوستان اور چین اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر تعاون کا راستہ اختیار کرتے ہیں، تو نہ صرف ایشیا بلکہ پورے عالمی نظام کو ایک نیا توازن مل سکتا ہے۔ باہمی اعتماد، احترام اور حساسیت پر مبنی تعلقات مستقبل کے امن و استحکام کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی میں اعتدال اور بصیرت کا مظاہرہ کرے، جبکہ چین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہمسایہ ممالک کے ساتھ پائیدار اعتماد قائم ہو۔ یہی وہ پیغام ہے جو قازان سے بیجنگ اور بیجنگ سے نئی دہلی تک گونجنا چاہیے کہ اختلافات وقتی ہوسکتے ہیں، لیکن تعاون ہی وہ بنیاد ہے جو آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل دے سکتا ہے۔

atiqfaruqui001@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS