دنیا کے طاقتور اور بااثر ملک کا موقف بدلتا ہے تو اس کے اثرات سے عالمی سیاست اچھوتی نہیں رہتی ہے۔ وہ بدلتی ہے۔ اسی لحاظ سے حالات بدلتے ہیں۔ وطن عزیز ہندوستان کے لیے یہ زیادہ محتاط رہنے کا وقت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین جنگ پر امریکہ کا موقف بدل رہا ہے۔ ٹرمپ پہلے پوتن سے گفتگو کر کے مذاکرات کی میز پر یوکرین جنگ ختم کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے ان کی دعوت پر پوتن الاسکا گئے تھے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ نے کچھ اور ذہن بنا لیا ہے۔ اب وہ کچھ اور کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل یوکرینی صدر زیلنسکی نے 90 ارب ڈالر کا ہتھیار امریکہ سے خریدنے کی بات کہی ہے۔ یہ بات زیلنسکی نے یوں ہی نہیں کہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ ہر حال میں امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ افغان اور عراق جنگوں نے اسے کافی مقروض بنا دیا ہے۔ امریکہ کی جی ڈی پی سے زیادہ اس پر قرض ہے۔ اس کا خاصا سود ہی اسے دینا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ٹرمپ کے لیے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ اسی لیے صدر بننے کے بعد سے ٹیرف کی باتیں کرنے لگے تھے۔ ٹیرف لگانے کے معاملے میں ان کی حکومت نے کسی کو بھی بخشا نہیں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کچھ ملکوں پر زیادہ ’نظر عنایت‘ کی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان پر پہلے 25 فیصد ٹیرف لگایا تھا اور روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے 25 فیصد اور ٹیرف لگا دیا۔ اس طرح امریکہ نے 50 فیصد ٹیرف ہندوستان پر لگایا ہے۔ یہ بحث کا الگ ایشو ہے کہ اس ٹیرف کے کیا اثرات وطن عزیز ہندوستان کی اقتصادیات پر پڑیں گے اور یہ بھی بحث کا الگ ایشو ہے کہ ہندوستان اور وزیراعظم نریندر مودی پر ٹرمپ کے حالیہ مثبت بیان کے بعد کیا امریکہ 50 فیصد ٹیرف ختم کرنے کی سمت میں کوئی ٹھوس فیصلہ لے گا؟ عالمی حالات کی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے فی الوقت یہ لگتا ہے کہ یوکرین جنگ کے سلسلے میں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ شاید ٹرمپ،پوتن کے روس کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ لیں جو غیر متوقع ہو۔
امریکی وزیرخزانہ اسکاٹ بیسنٹ کا کہنا ہے، امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وانس نے یوروپی یونین کی صدر اُرسولا وون ڈیر لیون سے روس پر دباؤ بنانے کے سلسلے میں اہم گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’اگر امریکہ اور ای یو ساتھ آتے ہیں تو روس سے تیل خریدنے والے ملکوں کے خلاف پابندی اور سخت کی جاسکتی ہے اور اضافی ٹیرف بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے روسی اقتصادیات پوری طرح سے تباہ ہو جائے گی اور صدر پوتن امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کی ٹیبل پر آنے کے لیے مجبور ہوجائیں گے۔‘ امریکی وزیرخزانہ اسکاٹ بیسنٹ کا خواب پورا ہوتا ہے یا نہیں، یہ دیکھنے والی بات ہوگی، کیونکہ 24 فروری، 2022کو یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک نے اسی منشا سے پابندیاں عائد کی تھیں کہ روس کی اقتصادیات خستہ ہو جائے گی، وہ دفاعی طور پر کمزور ہو جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ روس نے حالات سے نبردآزما ہوکر یہ دیکھ لیا کہ دوست کون ہے، دشمن کون۔
دشمن کو جواب کیسے دینا ہے۔ امریکہ کی اصل طاقت ڈالر میں ہے اور اس نے ڈالر کی متبادل عالمی کرنسی پر توجہ دی ہے جو عالمی تجارت میں قابل قبول ہو۔ اسی لیے اس نے چین سے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت شروع کی ہے، برکس کی کرنسی لانا چاہتا ہے۔ چین نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ اسے دوست مانتا ہے اور اس سے دوستی نبھا رہا ہے بلکہ اس لیے کہ ڈالر کا کمزور ہونا چین کے بھی حق میں ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسی لیے یہ کوشش کی تھی کہ یوکرین جنگ مذاکرات کی میز پر ختم ہو جائے، امریکہ کے لیے روس درد سر نہ بنے، چین سے دور ہو جائے مگر ایسا ہوا نہیں۔ دوسری طرف یوکرین کی طرف سے 90 ارب ڈالر کا ہتھیار خریدنے کی پیش کش انہیں کیوں بری لگے گی؟ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ روس سے جنگ لڑانے میں ٹرمپ کا امریکہ اب کھل کر یوکرین کا ساتھ دے گا۔ اس کے لیے وہ ہر طرف سے روس کی گھیرا بندی کرے گا۔ اس کے اتحادی یوروپی ممالک بھی یہی چاہتے ہیں۔ امریکہ کا جو فیصلہ ہوگا وہی ان کا ہوگا۔ یہ طے ہے کہ روس بھی بھرپور جواب دے گا، شاید توقع سے زیادہ۔ وطن عزیز کے لیے یہ بہت حساس وقت ہے، خارجی امور پر فیصلہ لینے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔
edit2sahara@gmail.com