عبیداللّٰہ ناصر
ایک سوال جو میرے ہی نہیں میرے جیسے لاکھوں کروڑوں ذہنوں کو جھنجھوڑتا رہتا ہے، وہ یہ ہے کہ مذہب یا ملک کے نام پر کھلی ہوئی ناانصافی اور ظالمانہ فیصلہ دینے کے بعد رات میں ان جج صاحبان کو سکون کی نیند کیسے آ جاتی ہے، کیوں ان کا ضمیر انہیں ملا مت نہیں کرتا اور وہ اپنے آل اولاد کے سامنے کیا مثال پیش کر رہے ہیں؟کہتے ہیں کہ انصاف کی دیوی کی آنکھ پر پٹی بندھی رہتی ہے، اس کا مقصد تو یہ ہوتا کہ متعلقہ جج ہر دنیاوی سوچ اور نظریہ سے بالاتر ہو کر انصاف اور صرف انصاف کرے گا، بھلے ہی اس کے سامنے اس کا کوئی سگا ہی کیوں نہ کھڑا ہو۔ اور ایسی ایک دو نہیں لاکھوں مثالیں ہیں جب جج صاحبان نے بڑی سے بڑی قیمت دے کر بھی انصاف کے تقاضے پورے کیے۔لیکن اس کا الٹا بھی ہوا ہے، پہلے بھی ججوں نے غلط فیصلے دیے ہیں لیکن2014 کے بعد یعنی ہندوستانی سیاست میں نریندر مودی کے مرکز میں آ جانے کے بعد نا انصافیوں کا یہ سلسلہ طویل تر ہوتا چلا گیا اور اب تو حالت یہ ہے کہ مقدمہ عدالت میں پہنچتے ہی عام آدمی بھی سمجھ جاتا ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ عوام کی نظروں میں عدلیہ سمیت سبھی آئینی اداروں کی ایسی بے توقیری اس سے پہلے کبھی سوچی بھی نہیں گئی تھی۔آئین نے جمہوریت کی بقا اور اس کے کامیاب نفاذ کے لیے عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات بالکل واضح کر دیے ہیں اور عدلیہ کو کسی بھی طرح سے حکومت کے زیر اثر نہیں رکھا تاکہ عوام کو انصاف مل سکے۔ یہاں تک کہ حکومت ججوں کی تقرری بھی عدلیہ کالجیم کی سفارش کے بعد ہی کرتی ہے۔ لیکن مودی حکومت نے سزا اور جزا دونوں اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوے عدلیہ کو بھی کافی حد تک جھکا لیا ہے۔ اس میں بہت بڑا فیکٹر بہت سے جج صاحبان کا آر ایس ایس کی شاخاؤں سے فیضیاب ہو کے نکلنا بھی ہے۔ اپنے وظیفہ یاب ہونے کے بعد جس طرح جج آر ایس ایس کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی جیسی ہی بولیاں بولتے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ میں اوپر سے لے کر نیچے تک آر ایس ایس کے لوگ پہنچ چکے ہیں۔ اس کی مثالیں دی جائیں تو رجسٹر کے رجسٹر تیار ہو سکتے ہیں۔
عام ہندوستانی کے لیے یہ شرم اور افسوس کی بات ہے، بھلے ہی ایسے جج صاحبان اور مودی بھکتوں کو احساس نہ ہوتا ہو لیکن ججوں کی اس حکومت پرستی اور کھلی ناانصافی کے چرچے اب غیر ملکوں میں بھی ہونے لگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ نے پانچ سال قبل ہوئے دہلی کے فرقہ وارانہ فساد کے سلسلہ میں عمر خالد سمیت جن پانچ مسلم نوجوانوں کے پانچ سال سے جیل میں بند ہونے کے باوجود ضمانت عرضی خارج کی ہے، اس پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پورے ایک صفحہ کی کوریج دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عمرخالد اور ایسے ہی دوسرے لوگ بغیر باقاعدہ مقدمہ چلے پانچ سال سے جیل میں بند ہیں، یہ مودی کے ہندوستان میں اختلاف رائے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اسی طرح مفکر اور دانشور نوم چومسکی نے بھی کہا ہے کہ ’’صرف ایک بات جو سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ وہ(عمر خالد) احتجاج کرنے اور مخالفت کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہا تھا اور یہ ایک آزاد معاشرہ میں بنیادی حق ہے۔‘‘ کسی بھی آئینی جمہوری نظام میں کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے اتنے دنوں تک جیل میں رکھنے کا قانونی حق نہیں ہے لیکن جب نظام آمریت، ظلم، نفرت اور حق تلفی پر مبنی ہو تو یہ مظالم انہونی نہیں ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے روشن ضمیر، دور اندیش اور محب وطن بزرگوں نے ملک کے لیے جو خواب دیکھا، جس آزاد معاشرہ، جس ترقی پسند سائنسی مزاج اور انصاف پسند سماج کا خواب دیکھا تھا اور جس کی آئینی گارنٹی دے دی تھی، وہ سب چکناچور ہو رہا ہے۔ بات صرف عمر خالد، شرجیل امام اور ان کے 9 دیگر بہادر ساتھیوں کی ہی نہیں، بات ہمارے پورے عدالتی نظام کی ہے، اس نظام کا شکار صرف یہی ہونہار نوجوان نہیں ہیں، بھیما کور ے گاؤں کے معاملہ میں بھی یہی سب کچھ کیا گیا تھا اور عدالت اسی طرح حکومت کے اشارے پر ناچ رہی تھی۔بھیڑے نامی جس سنگھی نے وہاں سارا فساد کرا یا اس کا بال تک بیکا نہیں ہوا اور بائیں بازو سے وابستہ جتنے اہم لوگ وہاں گئے تھے، سب کو اربن نکسل کہہ کر جیل میں ٹھونس دیا گیا، اس میں کئی بزرگ اور معذور لوگ بھی تھے۔ معذور پروفیسر سائیں بابا کی جیل میں ہی موت ہو گئی اور ایک دوسرے معذور کو پانی پینے کے لیے ایک اسٹرپ تک حاصل کرنے کے لیے عدالت سے فریاد کرنی پڑی اور یہ درخواست ان کی موت کے بعد ہی منظور ہوئی۔ایسا ظالمانہ عدالتی نظام تو شاید انگریزوں کے دور میں بھی نہیں رہا ہوگا۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک ممتاز وکیل اور دہشت گردی کے معاملوں میں ناجائز طریقے سے پھنساے گئے بے گناہ مسلمانوں کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے محمد شعیب صاحب کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو سپریم کورٹ کہتا ہے کہ یو اے پی اے کے معاملوں میں بھی ضمانت اصول اور جیل اکسپشن ہے اور اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، وہیں دوسری جانب دہلی ہائی کورٹ کہہ رہا ہے کہ لمبی قید اور مقدمہ میں تاخیر ضمانت منظور کرنے کا ہر معاملہ میں لاگو ہونے والا اصول نہیں ہے اور یہ جج کی صوابدید پر منحصر ہے، لیکن کیا جج ان معاملوں میں کسی بھی بنیاد پر کھلے عام تفریق کرسکتا ہے؟ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کھلے عام ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ کہہ سکتا ہے اور جج صاحب فرماتے ہیں کہ ہنس کر کہی گئی بات دھمکی نہیں ہوتی۔ آبرو ریزی کے ایک معاملہ میں جج صاحب نے مجرم کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ اس نے غلطی کی معافی مانگ لی ہے، وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس سے ملک کو بڑی امیدیں ہیں، جیل میں رکھ کر اس کی زندگی نہیں برباد کی جاسکتی ہے تو کیا عمر خالد، شرجیل امام وغیرہ جاہل ہیں؟ عدالتوں سے عجیب عجیب منطق سامنے آتی ہیں اور انصاف لرزہ بر اندام کھڑا رہتا ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت میں جو دلیل دی، وہ خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ملک کو پولیس اسٹیٹ بنانے کی جانب ایک قدم ہوگی۔اگر ہمارے عدالتی نظام میں یہ لا گوہوگیا تو پھر بغیرجرم ثابت ہوئے کوئی بھی شخص جیل میں ہی سڑتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے معاملوں میں سزا یا بری ہونے تک ملزم کو جیل میں ہی رکھنا چاہیے تو پھر مسٹر سالیسٹر جنرل لفظ ضمانت ہی قانون کی کتابوں اور عدالتی نظام سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ ایک طرف سپریم کورٹ بار بار یہ کہتا ہے کہ ضمانت حق ہے اور جیل اکسپشن، پھر یہ اصول ایمانداری سے کیوں نہیں لاگو کیا جاتا؟ کیوں یہ ججوں کو صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ سابق چیف جسٹس چندر چوڑ نے سبکدوشی کے بعد ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ میں نے اے سے لے کر زیڈ تک سب کو ضمانت دی تھی۔ عمر خالد وغیرہ کے معاملہ میں انہوں نے کہا کہ ان کے وکلا خود ہی ضمانت کی عرضی واپس لے لیتے تھے،اصل میں وہ ان لوگوں کے معاملہ میںکھلے عام شرارت کر جاتے تھے اور ضمانت کی عرضی مسز جسٹس بیلا ترویدی کی عدالت کو سونپ دیتے تھے جو ضمانت نہ منظور کرنے اور عوام کے شہری اور آئینی حقوق کی با لکل پاسداری نہ کرنے کے لیے بدنام تھیں۔وہ گجرات میں نریندر مودی کی لا سیکریٹری بھی رہی تھیں، وہ سپریم کورٹ کی ایسی پہلی جج تھیں جن کے ریٹائرمنٹ پر بار کونسل نے انہیں الوداعیہ نہ دے کر ان کے طریق کا ر پر ناراضگی جتائی تھی، اسی وجہ سے عمر خالد وغیرہ کے وکیل درخواست ضمانت واپس لے لیتے تھے۔
ان نوجوانوں پر الزام ہے کہ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کو بھڑکایا اور عین اس وقت دہلی میں فساد کرایا جب امریکی صدر وہاں موجود تھے جس کا مقصد ملک کو بدنام کرنا تھا۔حکومت کے کسی فیصلے اور اس کے وضع کردہ کسی قانون کی مخا لفت عوام کا آئینی حق ہے، رہ گئی فساد بھڑکانے کی بات تو کوئی احمق ہی اس پر یقین کرے گا کہ کوئی مسلمان ملک کے حالات اور اس تلخ حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہر فساد میں مسلمان ہی مارے کاٹے جاتے ہیں، ان کے ہی گھر، دکانیں وغیرہ جلائی جاتی ہیں، پولیس ان پر بے رحمانہ لاٹھی چارج ہی نہیں کرتی،بلکہ بے دریغ گولیاں چلا دیتی ہے، غیر مسلم دنگایوں کو قتل عام، لوٹ پاٹ، یہاں تک کہ آبروریزی کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے، اس کے بعد عدالتوں میں بھی وہ اکثر و بیشتر تفریق کا شکار ہوکر برسوں جیل میں سڑتے ہیں، میڈیا ان ہی کو بدنام کرنے میں زمیں آسمان کے قلابے ملا دیتی ہے، ان سب کے باوجود وہی فساد شروع کرتے ہیں یعنی اتنے احمق اور ناعاقبت اندیش ہیں کہ اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مار لیتے ہیں۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
obaidnasir@yahoo.com