جی ایس ٹی اصلاحات: ریلیف یا نیا جال؟

0

جی ایس ٹی کونسل کی کل ہونے والی 56ویں میٹنگ میں جو فیصلے سامنے آئے ہیں،ان پر سرکاری دعویٰ تو یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے،لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے یا پھر یہ سب انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے؟

فیصلے کے مطابق اب ملک میں 5 اور 18 فیصدکے صرف دو سلیب رہ گئے ہیں۔ 12 اور 28 فیصد کو ختم کر دیا گیا، مگر ساتھ ہی ایک نیا ’’گناہ ٹیکس‘‘ 40 فیصد کے طور پر متعارف ہوا،جو سگریٹ، پان مسالہ، کولڈ ڈرنکس اور مہنگی چیزوں پر لگے گا۔ یہ پورا نظام 22 ستمبر سے نافذ ہوگا۔ بظاہر سادہ لگتا ہے،لیکن اس کی تہہ میں سیاست اور معیشت کا وہی کھیل ہے جو ہر بار عوام کو ہی مار ڈالتا ہے۔2017 میں جب جی ایس ٹی لایا گیا تھا تو وعدہ تھا کہ یہ ٹیکس سیدھا، صاف اور سب کیلئے یکساں ہوگا۔ کہا گیا تھا کہ مہنگائی بھی کم ہوگی۔ لیکن ہوا کیا؟ سلیبوں کی بھرمار، الٹے سیدھے ڈھانچے اور صنعتوں پر غیرمنصفانہ بوجھ نے اسے ’’گبر سنگھ ٹیکس‘‘ کے نام سے بدنام کر دیا۔اب آٹھ سال بعد اچانک سادہ ڈھانچے کا اعلان اسے اتفاق سے زیادہ انتخابی مجبوری بتارہاہے۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے خوش خبری سنائی کہ روزمرہ کی کئی چیزیں دودھ، پنیر، صابن، ٹوتھ پیسٹ،سائیکل،ٹی وی اور ریفریجریٹر اب کم شرح یا صفر شرح پر آ گئی ہیں۔ کچھ جان بچانے والی ادویات بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ سننے میں تو سب اچھا لگتا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود حکومت مان رہی ہے کہ اس فیصلے سے کم از کم 47,700 کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ کچھ ریاستیں تو کہہ رہی ہیں کہ یہ خسارہ 2 لاکھ کروڑ سے اوپر جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کمی کون پورا کرے گا؟ آخرکار ریاستوں کو اور بالواسطہ طور پر عوام کو ہی اس کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔

جی ایس ٹی میں اصلاحات کے اعلان پراپوزیشن بھی خاموش نہیں رہی۔ پی چدمبرم نے یاد دلایا کہ وہ برسوں پہلے ہی کہہ رہے تھے جی ایس ٹی کو 18 فیصد تک محدود کیا جائے، مگر تب ان کی سنی نہیں گئی۔ اب جب حکومت خود وہی کر رہی ہے تو یہ کیوں نہ کہا جائے کہ فیصلہ 8سال تاخیر سے آیا؟ پون کھیڑا نے بھی طنز کساکہ جب حکومت کو آخرکار راہل گاندھی کی تجویز ماننی ہی تھی تو اتنا وقت کیوں ضائع کیاگیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ محض انتخابی دبائو ہے یا عالمی تجارتی دبائو نے بھی حکومت کو مجبور کیا؟

ظاہر ہے کہ کچھ اشیا ضرور سستی ہوں گی،لیکن 40 فیصد ’’گناہ ٹیکس‘‘ لگژری مصنوعات اور نقصان دہ اشیا کو بہت مہنگا کر دے گا۔ خود وزیراعظم نے اسے ’’دیوالی کا تحفہ‘‘ کہا، مگر کیا ٹیکس ڈھانچے کی اصلاح کو بھی انتخابی تحفے کی طرح بانٹنا چاہیے؟

یہ بات درست ہے کہ زرعی مشینری،کھاد،دستکاری اور کچھ چھوٹی صنعتوں کو ریلیف ملا ہے۔ مگر یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ معیشت میں مانگ گرگئی ہے، عوام کی قوت خرید کمزور ہو چکی ہے اور مہنگائی نے متوسط طبقے کو توڑ دیا ہے۔ ایسے میں یہ فیصلے اصلاح کم اور مجبوری زیادہ لگتے ہیں۔

جی ایس ٹی کا نعرہ تھا: ’’ایک ملک،ایک ٹیکس‘‘۔ مگر آج بھی لگژری کاروں،یاٹ،ہیلی کاپٹر اور سگریٹ پر الگ شرح ہے۔ اگر واقعی یکساں ٹیکس ہوتا تو یہ تقسیم کیوں باقی ہے؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ابتدا سے جو دعوے کیے گئے تھے،وہ محض نعرے تھے۔

ممکن ہے حکومت وقتی طور پر عوام کی ناراضگی کم کر لے اور انتخابی فائدہ اٹھا لے۔ لیکن طویل مدتی سطح پر ریاستوں کے مالی نقصانات،مرکز کی آمدنی میں کمی اور معیشت پر غیر یقینی اثرات نئے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ اگر یہ اصلاح اتنی ہی ضروری تھی تو آٹھ سال پہلے کیوں نہ کی گئی؟ کیوں عوام کو برسوں مہنگائی کے نیچے کچلا گیا؟ اور کیا اب بھی یہ اصلاح مکمل ہے یا پھر ایک اور ادھورا وعدہ ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ حکومت نے بوجھ کو کم نہیں کیا بلکہ اس کی تقسیم بدل دی ہے۔ عوام کو وقتی ریلیف دیا گیا،مگر ریاستوں کے کندھوں پر بھاری بوجھ رکھ دیا گیا۔ دعویٰ سادگی کا ہے،مگر حقیقت میں یہ بھی ایک سیاسی کھیل ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ اصلاح واقعی عوام کی زندگی آسان کرے گی یا پھر تاریخ میں ایک اور انتخابی نعرے کے طور پر درج ہوگی۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS