برہمن،بوسٹن اور دہلی

0

دنیا کی سیاست کبھی سیدھی لکیر پر نہیں چلتی، بلکہ یہ دائروں اور بھول بھلیوں میں الجھی ایک چال ہے،جہاں ایک ہی لمحے میں زبان سے شہد ٹپکتا ہے اور اگلے ہی لمحے زہر ٹپکنے لگتا ہے۔ دہلی میں امریکی سفارت خانہ محبت و شراکت کے ترانے گاتا ہے،مارکو روبیو کے پرانے اقوال دوہراتا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات انسانی صلاحیت اور ترقی کی بنیاد پر نئی بلندیوں پر پہنچ رہے ہیں اور اسی گھڑی وہائٹ ہائوس کا مشیر پیٹر ناوارو فاکس نیوز کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ہندوستان کو ’’لانڈرومیٹ‘‘ اور’’برہمنوں کو عوامی قیمت پر منافع خور قرار‘‘ دیتا ہے۔

ناوارو نے فاکس نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ برہمن ہندوستانی عوام کی قیمت پر منافع خوری کر رہے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کر ڈالا کہ ہندوستان روسی تیل کے معاملے میں کریملن کا ’’لانڈرومیٹ‘‘ بن چکا ہے۔ لانڈرومیٹ کا مطلب محض کپڑے دھونے کا عوامی مرکز نہیں بلکہ سیاسی و معاشی اصطلاح میں یہ اس جگہ یا طریقے کو کہا جاتا ہے جہاں کسی شے کوصاف کرکے قابلِ قبول بنا دیا جائے۔ جس طرح کالا دھن مختلف راستوں سے گزار کر سفید دکھایا جاتا ہے،اسی طرح ناوارو کا اشارہ تھا کہ ہندوستان روس سے سستا تیل خرید کر اسے ریفائن کرکے عالمی منڈی میں فروخت کرتا ہے اور یوں روسی تیل مغربی پابندیوں سے صاف ہو کر دوبارہ عالمی نظام میں داخل ہو جاتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک ہندوستان محض کریملن کیلئے ایک دھوبی خانہ ہے۔

پیٹر ناوارو کے یہ ریمارکس ایک سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا غماز ہیں،جس کا مقصد ہندوستان پر اقتصادی دبائو ڈالنا اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔ امریکہ نے پہلے ہی ہندوستانی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر رکھا ہے،جس میں سے 25 فیصد براہ راست روسی تیل کی درآمدات کے بہانے جوڑا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیا کے دیگر بڑے ممالک روس سے سستا تیل خرید کر اپنی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں تو صرف ہندوستان کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ناوارو کے برہمن تبصرے نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ ہندوستانی سماج میں برہمن صدیوں سے اعلیٰ ذات کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن وہ تاریخی طور پر کاروباری طبقہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں ’’بوسٹن برہمن‘‘ کی اصطلاح صدیوں سے موروثی اشرافیہ اور امیر کاروباری خاندانوں کیلئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ لوئیلز،کیبوٹس،لاجز،ایڈمز اور ونتھروپس جیسے خاندان نہ صرف دولت اور سیاست پر قابض رہے بلکہ ہارورڈ اور بوسٹن لاطینی اسکول جیسے ادارے بھی ان ہی کے اثر و رسوخ کے تحت پروان چڑھے۔ جان ایڈمز،روزویلٹ اور ٹی ایس ایلیٹ ان ہی خاندانوں کے چراغ تھے۔شاعر اولیور وینڈیل ہومز سینئر نے 1860ء میں بوسٹن کے ان خاندانوں کو ’’نیو انگلینڈ کی برہمن ذات‘‘ کہا اور آج 21ویں صدی میں یہ اصطلاح امریکہ کے پرانے پیسے والے طبقے کیلئے ایک علامتی شناخت اورامریکی اشرافیہ پر طنز بن گئی ہے مگر ناوارو کے بیان میں ابہام ایسا تھا کہ امریکی اشرافیہ پر یہ طنزہندوستانی سماج کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف بن گیا۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہندوستان واقعی روسی تیل کو خرید کر عالمی منڈی میں ریفائن کر کے بیچ رہا ہے تو اس میں کون سا اصولی یا قانونی مسئلہ ہے؟ ہندوستانی وزیر تیل ہردیپ سنگھ پوری نے بجا طور پر کہا کہ یہ پالیسی نہ صرف ہندوستانی عوام کو مہنگائی سے بچانے کا ذریعہ بنی بلکہ عالمی منڈی میں بھی قیمتوں کو قابو میں رکھنے میں مدد دی۔ امریکہ جس لانڈرومیٹ کا واویلا مچا رہا ہے،درحقیقت وہی عالمی استحکام کا ذریعہ بن رہا ہے۔

دوسری طرف،دہلی میں امریکہ کا نرم لہجہ اس بات کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن کو احساس ہوچکا ہے کہ ہندوستان -چین-روس تعاون کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا آسان نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں نریندر مودی کی روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ سے علیحدہ ملاقاتوں نے صاف کر دیا کہ نئی دہلی اپنی سفارتی خودمختاری کو کسی ایک طاقت کے تابع نہیں کرے گا۔ تیانجن اعلامیہ نے بھی اسی بات پر زور دیا کہ رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھایا جائے۔ یہ منظر امریکہ کیلئے تشویش ناک ہے کیونکہ وہ چاہے جتنا بھی دبائو ڈالے ہندوستان اب یکطرفہ طور پر واشنگٹن کا وفادار بننے کو تیار نہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بارہا یہ دیکھا گیا کہ امریکہ نے دوستی کے پردے میں ہندوستان پر معاشی حملے کیے۔ ٹیرف، درآمدی پابندیاں اور الزام تراشیاں اس پالیسی کا حصہ ہیں۔ مگر جب اس کے اپنے تجارتی مشیر برہمن اور لانڈرومیٹ جیسی اصطلاحات استعمال کرکے نہ صرف ہندوستانی عوام بلکہ امریکی اشرافیہ کی منافقانہ حقیقت کو عیاں کرتے ہیں تو یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن کیلئے شراکت داری محض وقتی نعرہ ہے،اصل ہدف اپنی برتری اور منافع خوری ہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS