غزہ جنگ جاری ہے۔ غزہ کے فلسطینیو ں کے ساتھ زبانی ہمدردی کے اظہار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خبر یہ آئی ہے کہ برطانیہ نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا منصوبہ ترک نہیں کیا ہے لیکن اس سلسلے میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ خبر یہ بھی آئی ہے کہ غزہ پر قبضے کے لیے فوجی کارروائی اسرائیل دو ہفتے میں شروع کر دے گا۔ اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق، ’اسرائیلی فوج نے کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں غزہ شہر کے گھیراؤ اور قبضے کے لیے اپنی تفصیلی منصوبہ بندی پیش کی ہے۔‘ اور اس کا کہنا ہے کہ کارروائی دو ہفتوں میں شروع ہو جائے گی۔ اس سلسلے کی تیاری کے لیے آئندہ دو ہفتوں میں 60000 اضافی فوجیوں کو بلانے کا عمل پورا کر لیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ غزہ شہر کے گھیراؤ اور قبضے کی تیاری کیوں کی جا رہی ہے اور اگر تیاری کی جا رہی ہے تو پھر یہ بات کیوں نہ مانی جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہونے جا رہی ہے؟لیکن اس طرف توجہ دینے کے بجائے، غزہ جنگ ختم کرانے پر توجہ دینے کے بجائے فلسطین کو ایک ریاست کے طو ر پر تسلیم کرنے پر کیوں توجہ دی جا رہی ہے؟ اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ اور غزہ جنگ کا اصل مقصد کیا ہے؟
یہ وہ سوال ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے، کیونکہ باتوں سے غزہ جنگ ختم نہیں ہوگی، امن بحال نہیں ہوگا، امن بحال کرنے کے لیے پرخلوص عملی اقدامات کرنے ہوں گے مگر اہل غزہ کی مدد مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی نہیں کر رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ روزانہ بڑی تعداد میں غزہ کے فلسطینی جانیں گنوا رہے ہیں۔ ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں جا چکی ہیں اور اس کے باوجود غزہ شہر کے گھیراؤ اور قبضے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جانا ہے۔
7اکتوبر، 2023کے حملوں کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی باضابطہ ابتدا کی۔ اسرائیل کے حامی ملکوں نے اسرائیل کا ساتھ دینے میں تاخیر نہیں کی۔ وہ یہ کہنے لگے کہ اسرائیل کو اپنی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ فلسطینیوں کو بھی اپنی جان و مال کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ 7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کی تعریف کسی ذی ہوش نے نہیں کی- کرنی بھی نہیں چاہیے تھی لیکن انسان ہونے کا تقاضا یہ بھی تھا کہ 7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کی وجوہات پر غور کیا جائے، یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اس سے پہلے غزہ کو کھلی جیل بنانے کی وجہ کیا تھی؟ کیا اسرائیل نے غزہ کے تمام لوگوں کو حماس کا جنگجو مان لیا تھا کہ اس نے غزہ کو کھلی جیل بنا دیا تھا؟ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد بھی یہ سوال بار بار پیدا ہوا ہے کہ کیا اسرائیل غزہ کے تمام لوگوں کو حماس کا جنگجو مانتا ہے؟ اگر وہ نہیں مانتا ہے، 7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کا قصوروار حماس کے جنگجوؤں کو ہی مانتا ہے تو اس کے فوجی امداد کے منتظر ضرورتمند لوگوں کو بھی گولیوں یا بموں کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ اسپتالوں پر ان کی بمباری کا مقصد کیا ہے؟ صحافیوں کے قتل کے پیچھے کی ان کی حکمت عملی کیا ہے؟ اسرائیل کی غزہ کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مار ڈالنے کی چال نے یوروپی ممالک میں اس کے خلاف ماحول بنا دیا ہے۔ یوروپی ملکوں کی حکومتوں کے لیے کھل کر اسرائیل سے یکجہتی کا اظہار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
وہ غزہ کے عام لوگوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ تو نہیں بنا پا رہے ہیں مگر اپنی ساکھ بچانے کے لیے انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرلیں گے۔ بڑی اچھی بات ہے قبول کرلیں لیکن کیا ان کے فلسطین کو ریاست قبول کر لینے سے وہ لوگ زندہ ہوجائیں گے جو آج مارے جا رہے ہیں؟ اہل غزہ کو امن کی ضرورت ہے، اس کے لیے جنگ ختم کرنے کی ضرورت ہے، غزہ کو آباد کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے پہلے انہیں خوراک کی ضرورت ہے تو یہ خواب انہیں کیوں دکھایا جا رہا ہے کہ غزہ کو ریاست تسلیم کر لیا جائے گا؟ اگر یہ خواب دکھایا ہی جا رہا ہے تو اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کا کیا ہوگا؟ اسرائیل کا حامی کوئی ملک کیا اسرائیل کے خلاف جانے کی جرأت کرے گا؟ یہ جواب طلب سوال ہیں۔ ان کا جواب کوئی نہیں دے گا، کیونکہ اب تک فلسطینیوں کو بہلانے کی ہی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ کبھی اگر ایسا لگا کہ ان کے لیے واقعی کچھ کرنے کی کوشش کی جاری ہے تو اس کی حقیقت بھی سامنے آگئی؟ یہ سمجھنے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ اوسلو معاہدے کی اہمیت آج کتنی باقی رہ گئی ہے؟
edit2sahara@gmail.com