ٹرمپ ٹیرف: ہندوستانی معیشت اور ٹیکسٹائل انڈسٹری پر کاری ضرب

0

ڈونالڈ ٹرمپ کے تازہ ترین محصولات نے ہندوستانی معیشت،خصوصاً ٹیکسٹائل و گارمنٹ انڈسٹری پر وہ کاری ضرب لگائی ہے جس کا اثر برسوں تک زائل نہیں ہوگا۔ بدھ،27 اگست 2025 سے نافذ ہونے والے ان ٹیرفس نے ہندوستانی برآمدات کو 50 فیصد محصول کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے،جو دنیا بھر میں سب سے بلند شرح ہے۔ یہ محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ براہ راست تروپور،نوئیڈا اور سورت جیسے بڑے پیداواری مراکز کی نبض پر لگنے والی کاری چوٹ ہے۔ فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز (FIEO)کے مطابق وہاں کے درجنوں کارخانوں نے پیداوار روک دی ہے،مزدور بے روزگاری کے دہانے پر کھڑے ہیں اور ایک پوری سپلائی چین تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔

فیڈریشن کے صدرایس سی رلھان کا بیان واضح کرتا ہے کہ ہندوستانی برآمد کنندگان اب ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے کم لاگت والے حریفوں کے سامنے پست حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہندوستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی امریکہ میں 55 فیصد اشیا،جن کی مالیت 47 تا 48 ارب ڈالر ہے، 30 تا 35 فیصد کی قیمتوں میں کمی کے خسارے سے دوچار ہیں۔ ٹیکسٹائل و ملبوسات ہی نہیں بلکہ جھینگے،زیورات،قالین اور فرنیچر جیسے شعبے بھی اس جھٹکے سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو کے مطابق صرف ان ہی سیکٹروں میں برآمدات کا حجم 70 فیصد تک گر سکتا ہے اور امریکہ کو ہونے والی کل برآمدات میں 43 فیصد کمی کا اندیشہ ہے۔اس سے صرف تجارت نہیں، ہزاروں ملازمتیں اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ سخت قدم کیوں اٹھایا؟ وائٹ ہائوس کی زبان میں یہ اقدام روس-یوکرین جنگ کو ختم کرنے کیلئے ہندوستان پر دبائو ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ ہندوستان روسی تیل درآمد کر کے نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر رہا ہے بلکہ دوبارہ بیچ کر منافع بھی کما رہا ہے۔ یوں عالمی سیاست اور سفارت کاری کا بوجھ ہندوستان کے محنت کش طبقے اور ٹیکسٹائل مزدوروں کی کمر پر ڈال دیا گیا ہے۔ یہ وہی مزدور ہیں جن کی دن رات کی مشقت نے ہندوستان کو عالمی گارمنٹ انڈسٹری میں جگہ دلائی تھی اور آج وہی بے یقینی اور فاقہ مستی کے کنارے دھکیل دیے گئے ہیں۔

ان حالات میں کانگریس کی تنقید بے جا نہیں کہ مودی حکومت کی سطحی خارجہ پالیسی نے ملک کو اس بحران میں جھونک دیا ہے۔ ملکارجن کھرگے نے درست کہا کہ لاکھوں ملازمتیں دائو پر ہیں۔ جے رام رمیش نے اسے ٹرمپ ڈبل ٹیرف کا نام دیاہے جو ہندوستانی برآمدات پر سیدھی کاری ضرب ہے۔

دوسری طرف، حکومت کا جواب محض سودیشی منتر تک محدود ہے۔ مودی حکومت نے عوام کو دل خوش کن نعرے ’’سودیشی‘‘ کے ذریعے باور کرانے کی کوشش کی کہ مقامی پیداوار ہی بحران کا حل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا تروپور، سورت اور نوئیڈا کے ہزاروں مزدورسودیشی نعرے کے سہارے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے؟ کیا زیورات اور جھینگے کے برآمد کنندگان محض کھوکھلے نعروں سے عالمی مارکیٹ میں مسابقت کر سکیں گے؟ مارکیٹ اپنافیصلہ نعروں سے نہیں بلکہ قیمت،معیار اور پالیسی سے کرتی ہے اور ان تینوں محاذوں پر ہندوستان آج زبردست کمزوری کا شکار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک تجارتی تنازع نہیں بلکہ ایک سفارتی ناکامی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے میں ناکامی،روس کے ساتھ تیل کے سودوں کی شفافیت نہ ہونے اور عالمی سیاست میں غیر ضروری الجھائو نے ہندوستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کی سب سے بڑی برآمدی منڈی بند ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کارخانے خاموش ہیں،مزدور بے چین ہیں،کسان اپنی پیداوار کے خریدار ڈھونڈنے سے قاصر ہیں اور معیشت ایک ایسے دھچکے کا شکار ہے جو برسوں کے محنتی خوابوں کو چکنا چور کر سکتا ہے۔

جب تک ہندوستان اپنی خارجہ و تجارتی پالیسیوں کو دور اندیشی، ٹھوس حکمت عملی اور عالمی برانڈنگ کے ساتھ آگے نہیں بڑھاتا،تب تک وہ ایسے ہی جھٹکوں کا شکار رہے گا۔ آج کا بحران صرف ٹیکسٹائل یا جھینگے کی صنعت کا نہیں،یہ ہندوستانی معیشت کی ساکھ کا بحران ہے۔ اور اگر اس پر فوری اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو تاریخ یہ لکھے گی کہ ٹرمپ کے محصولات نے ہندوستانی معیشت کو اس کے سب سے نازک موڑ پر ڈبو دیا۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS