جب حیات بخش درخت جان لیوا ہوجاتے ہیں: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

جشن آزادی کے موقع پر جب تیز بارش ہو رہی تھی، جنوبی دہلی کے کالکاجی میں 50سالہ ایک شخص نیم کے درخت کے سایہ میں اس ارادہ سے آیا کہ وہ بھیگنے سے بچ پائے گا، لیکن20سال سے زیادہ پرانا درخت جڑ سے اکھڑ گیا اور اس شخص کی موت ہو گئی جبکہ اس کی بیٹی اسپتال میں زندگی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ یہ واقعہ سی سی ٹی وی میں قید ہوگیا، جس میں فٹ پاتھ سے کچھ انچ کے فاصلے پر واقع بڑے درخت کو سڑک سے اکھڑکر مسافروں پر گرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ درخت کچھ گاڑیوں پر گر گیا، جس میں ایک موٹرسائیکل بھی شامل تھی، جس پر ایک شخص اور اس کی بیٹی سوار تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلسل ہورہی موسلا دھار بارش کی وجہ سے درخت کے اردگرد کی مٹی بہہ گئی تھی، جس کے باعث درخت گر گیا۔

ہر بار کی طرح دہلی میونسپل کارپوریشن نے کمزور درختوں کی شناخت اور ان کی کٹائی کی ضرورت کو دوہرایا ہے۔ لیکن کبھی اس بات پر کوئی گہرائی سے مطالعہ نہیں کر رہا ہے کہ دہلی اور اس سے متصل پرہجوم شہروں میں تھوڑی سی بارش کے بعد ڈیوائیڈر یا فٹ پاتھ پر لگائے گئے درخت زمین کو کیوں چومنے لگتے ہیں؟ جبکہ ہر بار بارش یا تھوڑی سی آندھی میں گرے ہوئے ایسے درخت بھلے ہی جانی نقصان کا باعث نہ بنیں لیکن گھنٹوں ٹریفک جام کا سبب بنتے ہیں۔ خاص طور پر اب تو وسطی دہلی بھی محفوظ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے 14فروری 2022کو ایک حکم جاری کیا تھا، اس حکم میں تمام میونسپل کارپوریشنوں اور سرکاری ایجنسیوں کو کہا تھا کہ درختوں کے لیے ایمبولینس بنائیں۔ عدالت نے اس اسکیم میں ڈی ڈی اے اور پی ڈبلیو ڈی جیسی ایجنسیوں کو بھی شامل کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ درختوں کو بچانے کے لیے ماہرین رکھے جائیں۔ ایسا کہا گیا کہ ایک سال پہلے ایسی کچھ ایمبولینس سڑکوں پر آئیں بھی، لیکن کالکاجی اور اس سے پہلے دہلی کے مختلف مقامات پر خستہ حال زمینی پکڑ کی وجہ سے جس طرح درخت گرے، اس سے واضح ہے کہ یہ مہم پوسٹر-تشہیر سے آگے کہیں بڑھ نہیں پائی۔

دہلی کو ہریالی کے لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ جب دہلی کو دارالحکومت بنایا گیا تو برطانوی ماہر تعمیرات سر ایڈون لٹیینس نے ہر سڑک پر خاص طرح سے درخت لگائے جن میں جامن، املی، نیم جیسے بڑے اور لمبی عمر کے درخت شامل تھے جو سایہ اور ہریالی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے کم پڑھے لکھے معاشرے کو سڑک کی شناخت میں بھی مدد دیتے تھے جیسے کہ جامن کے درخت والی سڑک، یعنی اشوک روڈ۔ سمجھنا ہوگا کہ زیادہ تر درخت 1910-1930 کے دوران لگائے گئے تھے، یعنی ان کی عمر 100سے125سال ہے۔ اگرچہ ان درختوں کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی جڑوں کو پھیلنے کے لیے جگہ نہ ملنا اور ان کے اردگرد سیمنٹ لگانے کی وجہ سے مٹی پر جڑوں کی گرفت کمزور ہونا، ایسی عام وجوہات ہیں جو درختوں کو ہلکی بارش یا طوفان میں ہلا دیتی ہیں۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ میٹروپولیٹن شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے ہم جس قدر سیمنٹ اور تارکول کا استعمال کر رہے ہیں، وہ شہری ہریالی کے دشمن ہیں۔ ہر بڑے درخت کو جڑوں کے گہرے اور مسلسل پھیلاؤ اور جڑوں تک پہنچنے کے لیے کافی پانی اور غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنگلات میں تو درختوں سے گرنے والے پتے ہی سڑ کر بہترین کھاد کی شکل میں بڑے درختوں کی پرورش کرتے ہیں، لیکن دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں درختوں کی جڑیں گہرائی میں جا کر انہیں مٹی میں مضبوطی سے جکڑنے کے بجائے سطح کے قریب ہی رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ نیچے پانی دستیاب نہیں ہے۔ شہری علاقوں میں گرنے والا زیادہ تر پانی زمین میں جذب نہیں ہوتا، بلکہ نالیوں میں بہہ کر باہر نکل جاتا ہے۔ شہروں میں زیادہ تر سطحوں پر سیمنٹ، کنکریٹ، ٹائلیں، پتھر، پلاسٹک، تارکول اور دھات کی موجودگی کی وجہ سے جڑیں درختوں کو مستحکم رکھنے کا اپنا کام کرنے سے قاصر ہیں۔

یہی نہیں شہروں میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی بھی درختوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔2018میں یونائیٹڈ کنگڈم کے ایئر کوالٹی ایکسپرٹ گروپ کی رپورٹ Effects of Vegetation on Urban Air Pollutionمیں بتایا گیا تھا کہ زبردست ٹریفک کے درمیان بڑھنے والے درختوں کی فضائی آلودگی کی وجہ سے نشوونما سست ہوسکتی ہے، پتیاں خراب ہوسکتی ہیں اور وہ بیماریوں اور کیڑوں کے تئیں زیادہ حساس ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی، خاص طور پر اوزون، فوٹو سنتھیسس میں خلل ڈال سکتی ہے اور پودوں کی صحت کو کمزور کر سکتی ہے۔ آلودہ ہوا کے کیمیائی ذرات جب پانی میں گھل مل کر زمین کی گہرائی میں درختوں کی جڑوں تک پہنچتے ہیں تو انہیں بیمار کر دیتے ہیں۔ ایندھن سے پیدا ہونے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیسوں کے فضا میں نمی کے ساتھ ردعمل سے بننے والی تیزابی بارش مٹی کے پی ایچ کو کم کردیتی ہے، جس سے کیلشیم اور میگنیشیم جیسے ضروری غذائی اجزا کی کمی ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً درخت کمزور ہو جاتے ہیں اور بیماریوں اور کیڑوں کا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دہلی میں کئی درخت دیمک کا شکار ہو چکے ہیں۔ آج ضروری ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ درختوں کو بھی فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے ان کے پتوں پر پانی اور ادویات کا باقاعدگی سے چھڑکاؤ کیا جائے۔

اگر ہم درختوں کے کمزور ہونے کی وجوہات کا مطالعہ کریں تو انہیں گرنے سے بچانے کے طریقے خود بخود تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ سڑکوں، پارکنگ اور فٹ پاتھوں کی تعمیر میں درختوں کی جڑوں کے اردگرد کی مٹی کو سیمنٹ یا ٹائلوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس سے پانی اور ہوا کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ فٹ پاتھ یا پارکنگ بناتے وقت درخت کے تنے سے کم از کم3-4فٹ کے دائرے میں مٹی کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو درخت چاہے پرانے ہوں یا نئے، نئی زندگی پا سکتے ہیں۔ ہر6-8 ماہ میں جڑوں کے قریب کی مٹی کو ڈھیلا کرکے اس میں نامیاتی کھاد ڈالیں، تاکہ غذائی اجزا اور نمی برقرار رہے۔

کئی بار بجلی کے تار یا اشتہاری بورڈ کے راستے میں آنے پر درختوں کی شاخیں کاٹ دی جاتی ہیں جس سے ان کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ پرانے درختوں میں دیمک، فنگس یا کھوکھلا پن آجاتا ہے، جن کا بروقت پتہ نہ لگے تو ان کی مضبوطی ختم کردیتے ہیں۔
شہروں میں درخت صرف سرسبز مناظر ہی نہیں بلکہ ہمارے وجود کی بنیاد ہیں۔ اگر ہم انہیں صحیح دیکھ بھال، کھلی سانس لینے کی جگہ اور سائنسی رکھ رکھاؤ دیں گے تو وہ نہ صرف نسلوں تک کھڑے رہیں گے بلکہ شہر کی ہوا، درجہ حرارت اور معیار زندگی کو بھی محفوظ رکھیں گے۔ شہروں کی ترقی درختوں کی قیمت پر نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہم آہنگی سے ہونی چاہیے۔

pc7001010@gmail.com

 

https://twitter.com/ShivAroor/status/1955912699151573001

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS