خواجہ عبدالمنتقم
کسی بھی جمہوری ملک میںآئین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے جمہوریت کے تینوں ستونوں یعنی مقننہ، انتظامیہ، اور عدلیہ کو اپنی حدود میں رہ کر الگ الگ کام سر انجام دیتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں۔ مقننہ قانون بناتی ہے، انتظامیہ اسے نافذ کرتی ہے لیکن جب انتظامیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے یا عوامی مفاد خطرے میں ہو تو عدلیہ ایسے معاملات میں مداخلت کرنے اورحسب ضرورت ہدایتی خطوط جاری کرنے کے لیے مجبور ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی انتظامیہ کو یہ عدالتی فعالیت ناگوار گزرتی ہے لیکن ہندوستانی آئین نے عدالتوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ قانون، قواعد، ضوابط اور انتظامی فیصلوں کی آئینی نوعیت کے مطابق جانچ کر سکیں۔ اگر کوئی قانونی یا انتظامی اقدام آئینی حقوق یا قوانین کے خلاف ہو، تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن یہ فیصلے سماجی حقائق، حقوقِ مساوات اور قانون کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے دیے جاتے ہیں۔ ایس پی گپتا والے معاملے میں آئینی توازن برقرار رکھنے اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کے وقت عدلیہ کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔حال ہی میں سپریم کورٹ کو گورنروں کے طویل مدت تک بلوں کو منظوری نہ دینے کے معاملے میں مداخلت کرنی پڑی اور سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ان الفاظ میں اپنی رائے پیش کی ’اگر انتظامیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے تو کیا عدالت خاموش تماشائی بن کررہ سکتی ہے ؟
عدلیہ کو جب بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نظر آئے تو وہ براہِ راست پالیسی میں مداخلت کرسکتی ہے، جیسا کہ سپریم کورٹ کو آوارہ کتوں(Stray dogs)والے معاملے میں کرنا پڑا کیونکہ کچھ مقامی قوانین میں ان کتوں کو مارنے کی اجازت تھی جبکہ مرکزی قانون بعنوان ’جانوروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کا انسداد ایکٹ،1960‘کے تحت بنائے گئے قواعد کے تحت صرف Sterilization کی اجازت ہے۔ ایک دو رُکنی بینچ نے نیوز رپورٹ کی بنیاد پر اسٹرے ڈاگز کو جلد از جلدشیلٹرز میں منتقل کرنے کا حکم دیا اور مابعد اپنے پہلے فیصلے میں کچھ شرائط میں ترامیم کرکے حتمی فیصلہ دیا۔
کبھی کبھی عدلیہ اور عاملہ کے مابین ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ ان کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک معاملے کی سماعت کے دوران جب سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی گئی کہ وہ مغربی بنگال میں صدر راج نافذ کرنے کے لیے حکم صادر کر دے تو جج صاحبان نے کہا کہ ایک جانب تو ہمارے جاری کردہ احکام کو عاملہ کے کام میں مداخلت کہا جاتا ہے تو دوسری جانب آپ ہم سے اس قسم کا حکم صادر کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ یہ عجیب سی بات ہے۔ مگر جب انتظامیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے تو عدالت کی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے چونکہ عدلیہ کو شہریوں کے حقوق کا کسٹوڈین یا محافظ مانا جاتا ہے۔
حال ہی میں جب سپریم کورٹ نے گورنروں کے لیے ضروری احکام صادر کرنے اور بلوں کی منظوری کے لیے وقت کا تعین کرنے کی بابت اپنا فیصلہ سنایا تو اسے عاملہ کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کہا گیا اور عدلیہ و عاملہ میں ٹکراؤ جیسی صورت حال پیدا ہوگئی۔ یہ تو رہی بات گورنروں کے اختیارات اور ان کے من مانے ڈھنگ سے کام کرنے اور وزراء کونسل کے فیصلوں کو کما حقہ اہمیت نہ دینے پر قدغن لگانے کی۔
قانون سازی کے معاملے میں بھی حکومت وقت سے ہمیشہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے عوام مخالف قوانین نہ بنائے جو بعد میں واپس لینے پڑیں اور ہزیمت ہو۔ کسانوں سے متعلق قانون، پوٹا، اب افسپا واپس لینے کی بات تو دوسری جانب بی ایس ایف سے متعلق قانون کی پنجاب میں مخالفت وغیرہ ایسی چند مثالیں ہیں۔ جب ایسے معاملات نظیری عدالتوں کے روبرو آتے ہیں تو وہ ان میں سے کچھ قوانین کو یا ان کی کچھ دفعات کو باطل و کالعدم قرار دے دیتی ہیں تو کبھی کبھی اس سے ا نتظامیہ اور عدلیہ کے مابین قدرے ٹکراؤ کی سی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے،جس سے ان کے وقار اور ساکھ پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ریاستی حکومتیں ایسے ایسے ضوابط وقواعد وضع کردیتی ہیں یا ایسی ہدایات جاری کردیتی ہیں جن سے انسانی حقوق تک چھیننے کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسے حالات میں کبھی ہماری عدالتیں از خود نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کی توجہ اس کی جانب مبذول کراتی رہی ہیں اور کبھی کبھی انہیں واپس لینے یا ان میں ترامیم کرنے کا، حسب صورت مشورہ یا ہدایات دیتی ہیں۔
اس طرح کی صورت حال پیدا ہونے سے انتظامیہ کی نیت پر بھی کبھی کبھی عوام کی جانب سے شبہات کا اظہار کیا جانے لگتا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے،ایک طویل عرصے سے اس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے۔ جب سپریم کورٹ کے کچھ ججز نے حکومت وقت پر کولجیم کے سلسلے میں تنقید کی تو اس سے عوام کی نظر میں عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کے ہی وقار میں کمی آئی۔دریں صورت مقننہ کو چاہیے کہ وہ قانون بناتے وقت عوام کے جذبات کا خیال رکھے، عدلیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لیے حکم عدولی کے مرتکب افراد اور اداروں،خواہ ان کی حیثیت کچھ بھی ہو،کے ساتھ نرمی نہ برتے اور انتظامیہ عدلیاتی احکامات پر ایمانداری سے عمل کرے اور کروائے۔ اس کی تازہ ترین مثال دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی ہے جس میں اس نے دہلی میں میونسپل حکام کو ان درختوں کا سروے کرنے کا حکم صادر کیا ہے جو اچانک گرنے پر لوگوں کی جان لے سکتے ہیں۔ اسی طرح آسام میں بنگالی زبان بولنے والوں کے ساتھ جو نا روا برتاؤ کیا جارہاتھا، انہیں گھر سے بے گھر کیا جارہاتھا اور بغیر کوئی نوٹس دیے سپریم کورٹ کے اس ضمن میں جاری کردہ احکام کی خلاف ورزی کرکے ان کے مکانات پر بلڈوزر چلا یا جا رہا تھا، اس پر سپریم کورٹ کو روک لگانی پڑی۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ کوئی بھی قانون اور اس کے تحت قواعد و ضوابط بناتے وقت اس بات کا دھیان رکھے کہ اس سے کسی آئینی توضیع کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی ہے۔ حال ہی میں آئین کی 130 ویں ترمیم کے بارے میں، جس کی مکمل تفصیل یہاں قلم بند کرنا ممکن نہیں، یہ اعتراضات کیے جارہے ہیں کہ اس سے انتظامیہ کو آئینی عہدوں پر فائز عہدیداران کے خلاف کارروائی کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے سماج کو بدعنوا ن عہدیداروں سے نجات مل جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ آنے پر پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنادے جو حزب مخالف کے حسب دلخواہ و حسب آئینی التزامات نہ ہو اور معاملہ اتنا بڑھ جائے کہ سپریم کورٹ کو بحالت مجبوری مداخلت کرنی پڑے۔اگر سپریم کورٹ بھی ایسے معاملات میں جہاں آئینی توضیعات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہو اور کسی کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہو، مداخلت نہ کرے تو اس کے بارے میں بھی یہ کہا جائے گا کہ اس نے بھی شہریوں کے حقوق کا کسٹوڈین یا محافظ ہونے کا کردار ادا نہیں کیا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
amkhwaja2007@yahoo.co.in