یوکرین جنگ میں پھر شدت آگئی

0

24 فروری، 2024سے یوکرین جنگ جاری ہے۔ اس درمیان ایک سے زیادہ بار امید افزا حالات بنے، ایسا لگا کہ جنگ ختم ہو جائے گی مگر جنگ ختم کرنا اگر آسان ہوتا تو پھر کیا بات تھی۔ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے، زیلنسکی نے پوتن کو یہ یقین نہیں دلایا کہ یوکرین ناٹو کا رکن نہیں بنے گااوریوکرین جنگ بڑی آسانی سے شروع ہو گئی۔جو بائیڈن کے امریکہ نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ ہمیشہ یوکرین کے ساتھ رہے گا۔ ٹرمپ نے صدر امریکہ بن جانے کے بعد جنگ ختم کرانے کی کوشش کی تاکہ جنگ کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے امریکہ کو بچا سکیں۔ پوتن سے بات کی۔ حالات سازگار ہوئے لیکن یوکرین نے روس کے اندر تک حملے کرکے یہ اشارہ دے دیا کہ وہ ابھی جنگ ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ مجبور ہوکر ٹرمپ ، روس کو انتباہ دینے لگے۔ اچانک خبر آئی کہ ٹرمپ اور پوتن کے مابین گفتگو ہو گئی ہے، پوتن ان سے ملاقات کے لیے الاسکا آرہے ہیں۔ وہ آئے۔ ٹرمپ نے سرخ قالین بچھواکر ان کا استقبال کیا۔ ان سے تقریباً تین گھنٹے تک گفتگو کی۔ حالات پھر جنگ ختم کرنے کے لیے سازگار ہو گئے۔

ٹرمپ نے بلاکر زیلنسکی سے بھی بات چیت کرلی،مگر یوکرین جنگ کے حامی یوروپی ممالک کے موقف سے ایسا نہیں لگاکہ وہ پوتن کی شرائط پر جنگ ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ بدلتے حالات کا اندازہ لگانے میں پوتن تاخیر نہیں کرتے ہیں، یہ بھی ان کی کامیابی کی ایک وجہ ہے، اس لیے یہ بات مانی نہیں جاسکتی کہ روس نے بغیر سوچے سمجھے یوکرین پر حملہ تیز کر دیا بلکہ لگتا یہ ہے کہ حملہ تیز کرکے اس نے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ اس میں دم خم باقی ہے، وہ جنگ لڑتے ہوئے کمزور نہیں ہوا ہے، اس لیے اسے کمزور سمجھنے یایہ سمجھنے کی بھول نہ کی جائے کہ وہ حالات سے تنگ آکر یوکرین جنگ ختم کرنا چاہتا ہے، لیکن خود زیلنسکی نے اب تک کے قول و عمل سے یہی ظاہر کیا ہے کہ وہ اچانک جنگ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں، وہ روس کو اپنی زمین دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کا ملک کب تک لڑتا رہے گا؟ -اس وقت تک جب تک کہ روس ختم نہ ہو جائے؟ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم ہیں۔ اس کے باوجود یوکرین، روس کو ختم کر پائے گا؟ اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے،البتہ اس سوال کی اہمیت ہے کہ یوکرین، روس کی ریفائنری پرحملے کیوںکررہاہے؟رپورٹ کے مطابق، یوکرین کے روسی آئل ریفائنریوں پر حملوں کی وجہ سے روس میں پیٹرول کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ خبر تو یہ بھی آئی ہے، روس نے اپنے نیوکلیئر پلانٹوں پر حملوں کے دعوے کیے ہیں۔ اس کے اس دعوے کا مطلب کیا ہے؟

ظاہر ہے، یوکرین جنگ میں پھر شدت آگئی ہے اور یہ شدت اس حد تک آگئی ہے کہ کبھی بھی یہ جنگ سنگین مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے یعنی ایٹم بم کے استعمال کا اندیشہ بڑھ گیا ہے، کیونکہ نیوکلیئر پلانٹوں پر حملے کی خبر کوئی چھوٹی خبر نہیں ہے۔ اگر یوکرین کی طرف سے اس طرح کے حملے ہوتے رہے تو روس کیا خاموش رہے گا؟ اس کی امید کم ہے۔ روسی سربراہ ولادیمیر پوتن نے بظاہر ناٹو کا رکن بننے سے یوکرین کو روکنے کے لیے جنگ چھیڑ کر یوروپی ممالک کو یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ روس کو ہلکے میں نہ لیا جائے،اس کی طاقت کا امتحان نہ لیا جائے۔ وہ سوویت یونین نہیں لیکن اس کے جیسا ہی ہے۔ وہ اتنا کمزور نہیں کہ ناٹو کی توسیع اس کی سرحدوں تک ہو جائے، اس لیے پوتن یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یوکرین کے سہارے امریکہ او ر یوروپی ممالک، روس کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔دوسری طرف یوروپی ممالک بھی یہ نہیں چاہتے کہ روس، یوکرین کے کچھ علاقوں پر قابض ہو جائے،اس کے ایسا کرنے پر اس کا حوصلہ بڑھ جائے گا جبکہ حوصلہ شکن روس ہی ان کے حق میں ہے۔ اس صورتحال میں الاسکا کی ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات اور بات ناکام سی لگنے لگی ہے۔ اس ملاقات نے جنگ ختم کرنے کی امید پیدا کی تھی، لیکن اب ایسا نہیں لگتا کہ یوکرین جنگ مستقبل قریب میں ختم ہوگی، کیونکہ جنگ ختم کرنے کے لیے حالات سازگار بنانے پڑتے ہیں جبکہ یوکرین اور روس دونوں ہی ایک دوسرے کو اپنی اپنی طاقت دکھانے کے لیے متحرک ہیں اور اس طرح وہ جنگ کبھی بھی ختم نہیں کرسکتے چاہے ٹرمپ اور پوتن بار بار ملتے رہیں۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS