این ڈی اے کی بیساکھیاں اور مرکزی حکومت کی چالیں: پروفیسراسلم جمشید پوری

0

پروفیسراسلم جمشید پوری

ہندوستان دنیاکا واحد بڑا ملک ہے جہاں جمہوریت لاگو ہے۔ دوسرے لفظوں میںہندوستان کا عام انتخاب ( لوک سبھا) دنیا کا سب سے بڑا انتخاب ہے۔ اس میں تقریباً 140کروڑ عوام 540عوامی نمائندے(لوک سبھا ایم پی) منتخب کر تے ہیں۔ سب سے زیادہ ممبر والی پارٹی کو صدر جمہوریہ ہند حکومت سازی کی دعوت دیتا ہے ۔اکثریت والی پارٹی ممبران میں سے کسی ایک کواپنا لیڈر چنتے ہیں ۔وہی لیڈر وزیر ِ اعظم بنتا اور حکومت بناتا ہے ۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں ملتی ،ایسے میں زیادہ ممبران والی پارٹی دوسروں کو ملا کر حکومت بناتی ہے ۔ایسی حکومت کو متحدہ یا مخلوط حکومت کہتے ہیں۔

موجودہ سرکار بی جے پی کی ہے جو 2014سے اب تک مستقل حکومت میں ہے ۔دو بار کے عام انتخابات میں اس پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور اپنے دم پر حکومت بنائی۔ دوسرے دل بھی شریک رہے ۔این ڈی اے کی حکومت رہی ۔مگر این ڈی اے میں بی جے پی اپنے دم پر حکومت سازی کرتی رہی ۔ 2024کے عام انتخاب میں حالات بدل گئے۔بی جے پی اکثریت سے دور رہی ۔اب اس کے سامنے حکومت بنانے کے لئے اکثریت ثابت کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔اس نے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کو حکومت سازی میں شامل کر کے حکومت تو بنالی ، مگریہ حکومت مخلوط حکومت ہے ۔جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کبھی بھی اس سرکار کو گرا سکتے ہیں۔اس میں ہر وقت خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔حکومت کبھی بھی گر سکتی ہے ۔وزیر اعظم اور پوری کیبنیٹ معاونین کی خوشامد میں لگی رہتی ہے ۔

موجودہ سر کار کے لئے چارپانچ دل ایسے ہیں جن کے تعاون سے حکومت سازی نہ صرف آسانی ہوئی بلکہ مرکزی حکومت کا دائرہ کار بھی بڑا ہوتا ہے۔ان میں ٹی ڈی پی ،جے ڈی یو ، لوک جن شکتی پارٹی (پاسوان گروپ) ہندوستانی عوام مورچہ،لوک دل خاص ہیں۔ان میں ٹی ڈی پی کے ١٦ممبر،جنتادل (یو) کے 12 ممبر ،لوک جن شکتی کے 6ممبر،لوک دل کے 2اور عوام پارٹی کا ایک ممبر شامل ہے۔ٹی ڈی پی آندھرا پر دیش کی بر سر اقتدار پارٹی ہے ۔اس کے سربراہ چندر بابو نائڈو ہیں، 2024میں جب ملک میں عام انتخاب ہوئے تو ٹی ڈی پی نے شاندار مظاہرہ کیا۔ ٹی ڈی پی بہت دن سے این ڈی اے کا اہم حصہ رہی ہے۔ لیکن جب 2024میں انتخابات کا ریزلٹ آیا تو نہ صرف بی جے پی اکثریت سے تھوڑا پیچھے رہ گئی بلکہ ٹی ڈی پی کنگ میکر بن کر ابھری ۔2014اور2019 میں یہ بات نہیں تھی۔ 2024 کے انتخاب کا ریزلٹ بالکل الگ تھا۔بی جے پی 240پر سمٹ کر رہ گئی تھی۔ اسے حکومت بنانے کیلئے تقریباً 30-32ممبران کی حمایت کی ضرورت تھی۔بی جے پی کو اپنے معاونین کی عملی شمو لیت کی اشد ضرورت تھی۔

این ڈی اے کا ایک خاص حصہ جنتا دل (یو) پارٹی رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جنتا دل (یو) خاص کر نتیش کمارپلٹی مارنے کے لئے مشہور رہے ہیں۔2024 کے انتخاب سے پہلے انہوں نے پلٹی ماری اور بہار میں آر جے ڈی کی شراکت سے حکومت بنائی تھی ،نتیش کمار نے پلٹی مارتے ہوئے بی جے پی سے ہاتھ ملایا اور نئی حکومت بنائی۔ دوسری طرف نتیش کمار’’ انڈیا ‘‘کے بنیاد گذارلوگوں میں اہم حیثیت کے حامل تھے۔ انہوں نے این ڈی اے کے خلاف ایک مضبوط محاذ ’ انڈیا‘ بنایا تھا۔جس میں کانگریس، اے اے پی ،آر جے ڈی ،ترنمول کانگریس ،جے ایم ایم ،ڈی ایم کے ،جنتادل (یو) وغیرہ جیسی کئی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آ گئی تھیں۔ نتیش کمار نے ’ انڈیا‘ کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسے مضبوط بنیاد درفراہم کی۔عام الیکشن سے قبل نتیش کمار نے پلٹی ماری۔لوک دل مغربی اتر پردیش کی مضبوط سیاسی پارٹی ہے۔چودھری چرن سنگھ،اجیت سنگھ اس کے رہنما رہے ہیں۔اس دل کو کسانوں کا دل کہا جاتا ہے۔

دراصل مغربی اتر پردیش میں کسان بہتات میں ہیں۔یہ کسان چودھری چرن سنگھ کو’ مسیحا‘ کہتے تھے۔کسانوں کے مسیحا والی یہ شبیہ اجیت سنگھ اور چودھری جینت کے زمانے میں بے شک کم ہوئی ہے مگر آج بھی کسانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہے۔ جینت ’انڈیا‘ میں ایک مضبوط و مستحکم ستون کی طرح ابتدا سے ہی ساتھ تھے ۔کبھی اکھلیش تو کبھی راہل گاندھی کے ساتھ ان کی جوڑی کی تعریف ہوتی تھی ۔ بی جے پی نے لوک دل کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ایک جال پھینکا۔بی جے پی نے چودھری چرن سنگھ کو ’ ’بھارت رتن‘‘ خطاب سے نوازا۔ بس پھر کیا تھا ۔اس ا علان سے ہی لوک دل کے ہائی کمان جینت سنگھ کا دل ڈانوا ڈول ہو نے لگا۔آخر کار بی جے پی کا دائو کارگر ہوا۔لوک دل پارٹی ’انڈیا‘ سے ’ این ڈے اے‘ کی ہوگئی ۔یہ کام عام الیکشن سے پہلے ہوا۔ بی جے پی خوش بھی کہ جو کسان اب تک اس سے ناراض تھا وہ لوک دل کے ذریعہ ایک بار پھر اس کی طرف ہو جائے گا۔لیکن انتخاب میں لوک دل کو صرف دو ہی سیٹ مل سکیں۔

چراغ پاسوان اصل میںلوک جن شکتی پارٹی کے بانی ،قد آور رہنما رام ولاس پاسوان کے بیٹے ہیں۔پاسوان دلتوں اور پچھڑوں کے نہ صرف بہار بلکہ پورے شمالی ہند کے نیتا تھے ۔ بہار میں تو ان کا خاص اثر تھا۔ایک بار انہوں نے لوک سبھا الیکشن میں ریکارڈ پانچ لاکھ سے زائد ووٹوں سے فتح حاصل کی تھی ۔ان کی موت کے بعد ان کے بیٹے چراغ پاسوان نے ان کی وراثت کو سنبھا لا اور شروع سے این ڈی اے کے ساتھ رہے۔2024 کے عام الیکشن میں لوک جن شکتی پارٹی نے 6سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔ بی جے پی نے چراغ پاسوان کو بھی حکومت میں شامل کیا ۔

ہندوستانی عوام مورچہ (HAM ) بھی آج کل این ڈی اے کا حصہ اور حکومت میں شامل ہے ۔ جیتن رام مانجھی اس پارٹی کے قومی صدر ہیں۔مانجھی اس سے قبل بہار کے وزیر ِ اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں ۔ابھی بہار سے ایم پی ہیں اور مرکزی سرکار میں وزیر ہیں۔کئی بار ایم ایل اے اور بہار کی کئی سر کاروں میں وزیر رہ چکے ہیں۔
بی جے پی کی یہ پانچ ایسی بیساکھیاں ہیں جو کسی بھی وقت الگ ہو سکتی ہیں ۔بی جے پی کی حکومت انہیں کے کاندھوں پر ہے ،خاص کر ٹی ڈی پی اور جے ڈی (یو) بی جے پی کے لئے تلوار کی طرح لٹکی ہیں اور ہر وقت ہاتھ کھینچ لینے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں۔بی جے پی کی سانسیں اٹکی رہتی ہیں۔اس وقت چندر بابو نائیڈو اور راہل کی نزدیکیاں بڑھ رہی ہیں۔جگن موہن ریڈی کے توسط سے راہل ،نائیڈو سے رابطے میں ہیں۔بی جے پی کو ڈر ہے کہ ٹی ڈی پی کبھی پالا بدل سکتی ہے ۔ دوسری طرف بہار میں اسمبلی الیکشن ہو نے والے ہیں۔

این ڈی میں شامل تین پارٹیاں جے ڈی یو ،لوک جن شکتی پارٹی اور ہندوستانی عوام مورچہ بہار میں میدان میں ہیں۔یہ تینوں پارٹیاں بہار میں اپنی طاقت بڑھا نا چاہتی ہیں۔لہٰذا سیٹوں کا بٹوارہ ہی نہیں ہو پا رہا ہے۔ جے ڈی یو چاہتی ہے کہ بی جے پی یعنی این ڈی اے، نتیش کمار کو وزیرِ اعلیٰ کے طور پر اعلان کرے اور الیکشن نتیش کمار کے ہی نام سے ہی لڑا جائے ۔ بی جے پی ہائی کمان کو یہ بات پسند نہیں۔جے ڈی یو ،ان کی پارٹنر ہے مگر بی جے پی بہار میں خود اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔وزیرِ اعظم، وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈّاکے بہار میں متعدد دورے ہو چکے ہیں ۔ہر دورے میں جے ڈی یو کو امید ہوتی ہے کہ بی جے پی بہار الیکشن نتیش کمار کی قیادت میں لڑنے اور انہیں وزیرِ اعلی ٰ کا امیدوار ہو نے کا اعلان کر ے گی مگر اسے مایوسی ہاتھ لگتی ہے ۔اسی لئے بی جے پی اور نتیش کمار کے بیچ سرد جنگ کے سے حالات ہیں۔نتیش کمار کبھی بھی پلٹی مار سکتے ہیں۔

چراغ پاسوان بھی اپنے تیور دکھا رہے ہیں ۔وہ زیادہ سیٹوں کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ان کی پارٹی بہار میں خوب محنت کر رہی ہے ۔جو جے ڈی یو کے ساتھ ساتھ بی جے پی کیلئے بھی باعث سر درد ثابت ہو رہی ہے۔ جیتن رام ماجھی بھی اپنی الگ آواز بلند کر رہے ہیں۔لوک دل کئی معاملات میں مرکزی سرکار کی پالیسیوں کی مخالفت کر چکی ہے ۔مسلم وقف قانون کی مخالفت میں تو این ڈی اے کی کئی پارٹیاں سامنے آچکی ہیں ۔اصل میں ٹی ڈی پی یا جے ڈی یو ہو ،چراغ پاسوان یا جیتن رام ماجھی ہو یا پھر لوک دل ،سب کو مسلم ووٹ چاہیے۔ یہ سب پارٹیاں مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ان کی اپنی مجبوری ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کو نا ئب صدر جمہوریہ الیکشن میں کراس ووٹنگ کا ڈر ستا رہا ہے ۔اسی لئے وہ لوک سبھا میں ایک قابل ِ اعتراض بل لائی ہے، تا کہ اس کے ذریعہ اپنے معاونین کو ڈرایا دھمکایا جائے اور حزبِ اختلاف کے سی ایم پر بھی قابو رکھا جا سکے ۔اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔؟ بیساکھیاں اپنا کام کرتی ہیں یا مرکزی حکومت کی چالیں کامیاب ہوتی ہیں۔

aslamjamshedpuri@gmail.com

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS