بھارت، امریکہ اور چین کے مابین بنتے بگڑتے تجارتی رشتے : محمدعباس دھالیوال

0

محمدعباس دھالیوال

جب سے ٹرمپ نے امریکہ میں اپنی دوسری پاری کی شروعات کی ہے، تب سے وہ اپنی باتوں اور کاموں کی وجہ سے مسلسل چرچے میں ہیں۔ اپنی پہلی پاری کے دوران چاہے ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات ظاہر کیے ہوں، لیکن اس نئی اننگز میں بھارت کے لیے ان کا رویہ ویسا نظر نہیں آتا۔ اس دور میں جس طرح سے ٹرمپ نے آئے دن بھارت پر ٹیرف بڑھانے کے بیانات دے کر مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔دراصل 90 کی دہائی میں سویت یونین کے بکھرنے اور 1991 کے بعد بھارت کی طرف سے آزاد بازار کی پالیسیوں کو اپنانے کے بعد بھارت اور امریکہ کے درمیان کافی اچھے تعلقات بننے لگے تھے، جو پچھلے سال تک اچھے چل رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی ٹرمپ نے جنوری 2025 میں صدر کے طور پر اپنی دوسری اننگز کی شروعات کی، وہ بھارت کو لے کر کبھی ٹیرف تو کبھی بھارت-پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر بیانات دے کر بھارت کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج دنیا کے مختلف ممالک کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں دوسرے ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے، یعنی کوئی بھی ملک ہر میدان میں مکمل طور پر خود کفیل نہیں ہے۔امریکہ کے ٹیرف کے خلاف آواز اٹھانے والے ممالک میں چین سب سے آگے ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھ گئی تھی کہ امریکہ نے چینی مصنوعات پر 145 فیصد اور چین نے امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیکس لگا دیا تھا۔پھر مئی 2025 میں جنیوا میں ہوئی میٹنگ کے دوران تجارتی معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے ٹیرف کو کم کیا۔ حالانکہ، اس کے باوجود دونوں کے درمیان ٹیرف کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوا ہے۔ جمعرات کو چین نے ایک بار پھر امریکہ کے خلاف آواز اٹھائی، لیکن اس بار اس نے غیر ملکی سرزمین یعنی بھارت کو چنا۔

ادھر چین کی ویب سائٹ ’گوانچا‘ میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ نزدیکی سے جو فائدے ہوئے تھے، اب دوسرے دور میں ٹیرف کی وجہ سے ان پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ان تبدیلیوں سے کہیں نہ کہیں چین کو فائدہ ہو سکتا ہے۔شو فے ہونگ نے امریکہ کو ایک ’دھمکانے والے ملک‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لمبے وقت سے آزاد تجارت سے فائدہ اٹھاتا آ رہا ہے، لیکن اب وہ دوسرے ملکوں سے ’زیادہ قیمتیں‘ لینے کے لیے ٹیرف کو ’سودے بازی کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔شوفے نے کہاکہ امریکہ نے بھارت پر 50 فیصد تک ٹیرف لگا دیا ہے اور اس سے بھی زیادہ لگانے کی دھمکی دی ہے۔ چین اس کا سختی سے مخالف ہے۔ خاموشی اختیار کرنے سے غنڈوں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ایک طرف امریکہ کے ساتھ بھارت کے تجارتی تعلقات میں غیر یقینی صورتحال دیکھی جا رہی ہے، وہیں دوسری طرف بھارت اور چین کے درمیان تعلقات میں نرمی محسوس کی جا رہی ہے۔لداخ کے گلوان میں سال 2020 میں ہوئی جھڑپ کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات میں گراوٹ آئی تھی۔ تب سے چین اور بھارت آہستہ آہستہ تعلقات کو معمول پر لانے کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔

ادھر چین سے بھارت کی بڑھتی نزدیکی پر پروفیسر الکا آچاریہ کہتی ہیں، ’چاہے چین ہو یا امریکہ، دونوں کے خلاف عوامی جذبات کے سطح پر یہ دیکھنا ہوگا کہ لوگ کس کے خلاف زیادہ ہیں۔ چین کے ساتھ لمبے وقت سے سرحدی تنازعہ ہے، لیکن ٹرمپ اور مودی کی دوستی کے باوجود بھارت پر یکطرفہ ٹیرف لگنا بہت سے بھارتیوں کے لیے ایک جھٹکا ہے۔‘ ٹرمپ نے بھارت کے ہمسایہ ممالک پر اتنا بڑا ٹیرف نہیں لگایا جتنا 50 فیصد بھارت پر لگا دیا۔ اس لیے یہاں اینٹی-چائنا کے مقابلے میں اینٹی- امریکہ جذبات بھی کم نہیں ہیں۔دوسری طرف جمعرات کو شو فے ہونگ نے ایکس (X) پر ایک پوسٹ کے ذریعے بھارت کے امریکہ اور چین کے ساتھ تجارت کی موازنہ کی ہے۔اس پوسٹ میں گلوبل ٹائمز کا ایک گرافک موجود ہے۔ اس کے مطابق، مالی سال 2024-25 میں بھارت-چین کے درمیان 127.71 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی، جبکہ بھارت اور امریکہ کے درمیان 132.21 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی۔امریکہ کے ٹیرف وار کے پس منظر میں چین کے سفیر شو فے ہونگ نے کہا ہے کہ بھارت پر لگائے گئے امریکی ٹیرف کا چین ’پْرزور مخالف‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت کے درمیان مزید شراکت ہونی چاہیے۔شو فے ہونگ نے امریکہ کو ایک ’بدمعاش‘ (Bully) قرار دیا اور کہا کہ فری ٹریڈ سے امریکہ کو ہمیشہ فائدہ ملا ہے لیکن اب وہ ’سودے بازی کے ہتھیار‘ کے طور پر ٹیرف کا استعمال دوسرے ملکوں سے ’زیادہ قیمت وصولنے‘ کے لیے کر رہا ہے۔جمعرات کو انہوں نے کہاکہ امریکہ نے بھارت پر 50 فیصد تک کا ٹیرف لگایا ہے اور اسے مزید بڑھانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ چین اس کا سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ خاموش رہنے سے بدمعاشوں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔اب آنے والے وقت میں یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ بھارت اور چین کے درمیان تجارت کے لیے بہتر ہوتے رشتوں کو امریکہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا امریکہ کے صدر ٹرمپ بھارت کے لیے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی لائیں گے…؟

abbasdhaliwal72@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS