امریکہ کے صدارتی انتخابات کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ کو ہی نہیں، غزہ جنگ کو بھی ختم کرانے کا اعلان کیا تھا، صدر منتخب ہو جانے کے بعد بھی ٹرمپ نے یہی بات کہی تھی۔ پھر ایسی کیا بات ہوگئی کہ یوکرین جنگ ختم کرانے پر تو ان کی توجہ ہے مگر غزہ جنگ ان کی توجہ سے محروم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ غزہ جنگ کو اپنے حساب سے جاری رکھنے کی ٹرمپ نے اسرائیل کو پوری چھوٹ دے دی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
اصل میں دیگر امریکی صدور کی طرح ڈونالڈ ٹرمپ بھی امریکہ کی اسرائیل لابی کو خوش کرنے کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ پچھلی مدت صدارت میں بھی اسرائیل کے مفاد کے لیے انہوں نے کئی اہم اقدامات کیے تھے۔ اس بار بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ وہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یاہو ان کے لیے اہم ہیں۔ ٹرمپ یہ بھی جانتے ہیں کہ خطے کے عرب لیڈروں کو بہلانا کوئی مشکل کام نہیں، وہ ہر حال میں امریکہ کے ساتھ رہیں گے اور اس کے لیے اسرائیل سے رشتہ استوار کرنے اور مستحکم بنانے میں بھی انہیں کوئی گریز نہیں لیکن اہل غزہ کے انسانی حقوق کے نام پر اسرائیلی لیڈروں کو اپنے مقصد میں ناکام کرنے کا مطلب امریکہ کی اسرائیل نواز لابی کو ناراض کرنا ہوگا اور ٹرمپ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ غالباً اسی لیے ان کی طرف سے غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنانے جبکہ اہل غزہ کو مصر اور اردن میں بسانے کی بات کہی گئی تھی۔
یہ بات الگ ہے کہ حیران کن طور پر ان کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مصر اور اردن تیار نہیں ہوئے، دیگر عرب ملکوں نے بھی اس کی مخالفت کی لیکن ٹرمپ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بضد رہیں گے تو کون عرب ملک ہے جو امریکہ سے دشمنی مول لے گا؟ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان اہل غزہ کے لیے بڑے بڑے بیانات دیتے رہے ہیں لیکن وہ انسانیت کے نام پر بھی اہل غزہ کی اتنی مدد نہیں کرسکے جتنی مدد یوروپ اور افریقہ کے ملکوں نے کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایران نے اہل غزہ کے کاز کی حمایت کی ہے لیکن وہ جنگ جو ایران نے اپنے لیے لڑی، کیا اہل غزہ کے لیے کبھی لڑی؟
ظاہر ہے، بیان بازی سے نہ مسئلے ختم ہوتے ہیں، نہ جنگیں ختم ہوتی ہیں اور مسلم لیڈروں نے اب تک بیان بازی سے ہی کام چلایا ہے تاکہ ان کی امیج مسلم دنیا میں بہتر رہے مگر عالمی برادری ان کی حقیقت جان چکی ہے، اس لیے ان کی پہلے جیسی امیج نہیں رہ گئی ہے۔ ان حالات کا اندازہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ہے۔ اسی لیے ان کی توجہ کا مرکز غزہ جنگ نہیں، یوکرین جنگ ہے۔ ٹرمپ جانتے ہیں کہ یوکرین جنگ جب تک جاری رہے گی، روس کے لیے چین کے ساتھ رہنا مجبوری ہوگی۔
اس کا بھرپور فائدہ چین اٹھائے گا، اس کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ امریکہ کے مفاد پر ضرب پہنچا سکے۔ یہ کام وہ کر بھی رہا ہے۔ ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے کی کوشش چین، روس کے ساتھ مل کر ہی کر رہا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ کا زور یوکرین جنگ ختم کرانے پر ہے۔