جنگ بندی پر بے معنی رہے امریکہ -روس مذاکرات: محمد عباس دھالیوال

0

محمد عباس دھالیوال

کسی ملک میں امن و استحکام نہ ہو تو اس سے تجارتی رشتہ بنانے کے بارے میں کوئی ملک سوچ بھی نہیں سکتا۔ یوکرین کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ روس سے اس کی جنگ جاری ہے، اس کے خاصے علاقوں پر روس نے قبضہ کر رکھا ہے تو اس کی حالت ایسی نہیں ہے کہ تجارتی رشتوں کو آگے بڑھاکر اقتصادی استحکام کی طرف بڑھ سکے۔ اس وقت دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ کی نمائندگی امریکہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اس کے زیر اثر یوروپی یونین کے مختلف ممالک اور برطانیہ، فرانس وغیرہ ہیں۔ دوسرا گروپ روس، چین، ایشیا، یوروپ اور افریقہ کے ممالک پر مشتمل ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ تجارت کے پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے بیوپاری بھی ہیں اور بیوپاری قسم کی ذہنیت رکھنے والا کوئی شخص یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ دنیا میں لڑائی جھگڑے کا ماحول پیدا ہو، کیونکہ لڑائی جھگڑا اور کسی بھی قسم کے جنگ کے سائے میں بزنس کبھی بھی پروان نہیں چڑھ پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری مدت کار کے لیے ٹرمپ نے جب سے امریکہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے، دنیا میں امن کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ نے جہاں صدر بنتے ہی اپنے پرانے رقیب روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے بات چیت کی وہیں مختلف ممالک کے مابین چل رہی جنگوں کو رکوانے میں اہم رول ادا کیا۔ یوکرین جنگ ختم کرانے کے سلسلے میں ٹرمپ نے روسی صدر پوتن سے بات چیت کی راہیں ہموار کیں توگزشتہ تین سال سے جنگ کی سختیاں جھیل رہے یوکرین کے صدر زیلنسکی سے بھی بات چیت کی۔ یوکرین جنگ پر الاسکا میں ٹرمپ کی ملاقات پوتن سے ہوئی جبکہ وائٹ ہاؤس میں انہوں نے زیلنسکی کی میزبانی کی۔ اس میں یوروپی رہنما جیسے کہ کیئر اسٹارمر، ایمینوئل میکروں اور فریڈرک مرز بھی شریک تھے۔ صدر امریکہ ٹرمپ کا مقصد جنگ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کرنا تھا۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ امریکہ کسی بھی امن معاہدے کے تحت یوکرین کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں مدد کرے گا۔

زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یہ سیکورٹی ضمانتیں اگلے 10 دنوں میں’تحریری طور پر‘ طے پا جائیں گی۔ سیکورٹی معاہدے کے تحت یوکرین نے امریکہ سے تقریباً 90 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے پر اتفاق کیا ہے۔ یوروپی لیڈروں نے مذاکرات سے پہلے جنگ بندی کو ضروری قرار دیا ہے مگر ٹرمپ اس شرط کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ وہ جنگ کے جاری رہتے ہوئے بھی لچکدار مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ادھر جرمن چانسلر فریڈرک مرز اور ناٹو کے سکریٹری جنرل مارک روٹی نے یہ تصدیق کی ہے کہ پوتن نے دو طرفہ اجلاس پر اتفاق کیا ہے لیکن اس سلسلے میں تاریخ یا مقام کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ زیلنسکی اس بار کچھ بدلے ہوئے نظر آئے۔ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کو انہوں نے ایک ’بہت اچھی گفتگو‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روسی رہنما سے ملنے کے لیے ’تیار‘ ہیں مگر ماسکو سے فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ اس نے کسی سربراہ اجلاس پر اتفاق کیا ہے لیکن روس کے صدارتی معاون یوری عشاکوف کا حوالہ دیتے ہوئے روسی میڈیا نے یہ خبر دی ہے کہ پوتن اور ٹرمپ نے روسی اور یوکرینی وفد کے مابین’براہ راست‘ بات چیت کے حق میں بات کی ہے۔ اب اگر پوتن اور زیلنسکی کے مابین گفتگو ہوتی ہے تو فروری 2022 میں جنگ شروع ہونے کے بعد ان کے مابین یہ پہلی براہ راست گفتگو ہوگی۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین جنگ شروع کرنے سے پہلے بار بار یہ بات کہی تھی کہ وہ ناٹو کی توسیع اپنی سرحدوں تک برداشت نہیں کریں گے۔ زیلنسکی انہیں یہ اعتماد دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے کہ ان کا ملک ناٹو کا رکن نہیں بنے گا لیکن ٹرمپ سے ملاقات میں بھی پوتن نے یہ شرط رکھی کہ یوکرین ناٹو سے وابستہ نہیں ہوگا اور ٹرمپ کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ پوتن کی یہ بات بھی ماننے کے لیے تیار ہیں۔

روسی جلاوطن اور پوتن کے نقاد کونسٹنٹن سونن یونیورسٹی آف شکاگو ہیرس اسکول آف پبلک پالیسی میں پروفیسر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کیف کے لیے معنی خیز سلامتی کی ضمانتوں کو زمین پر لانے کے لیے یوروپی فوجیوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔سونن نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا، ’یہ پوتن کے لیے ناقابل قبول ہے ، لہٰذا یوروپی رہنماؤں کے لیے یہ سوال ہے کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح راضی کیا جائے کہ اس طرح کی ضمانتوں کے بغیر جنگ اگر اب رک بھی جائے گی تو مستقبل قریب میں وہ دوبارہ شروع ہو جائے گی۔‘ سونن کا کہنا ہے کہ ماسکو کے 2014 کے حملے اور کریمیا پر قبضہ سمیت کئی دہائیوں سے’تحریری گارنٹیوں‘ کے ذریعے یوکرین ناکام رہا تھا۔سونن کے مطابق، روس نے یوکرین کی خودمختاری اور سرحدوں کو تسلیم کرنے والے بہت سارے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ پوتن خود2004 میں اس طرح کے ایک معاہدے پر دستخط کر چکے تھے مگر 2014 اور2022 میں ان تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ان کے مطابق، یہ سب کچھ کہنا ہے کہ کچھ دستاویزات میں اس کی زبان نہیں ہے۔

ذرائع کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق، روس نے یوکرین کے اس کے20 فیصد سے زیادہ علاقوں پر کنٹرول کر رکھا ہے۔امریکہ کے وزیرخارجہ ،مارکو روبیو نے کہا ہے کہ ماسکو اور کیف دونوں کو ایک معاہدے کے لیے مراعات دینی ہوں گی۔روبیو نے کہا، ’ظاہر ہے ، زمین یا جہاں آپ ان لائنوں کو کھینچتے ہیں، جہاں جنگ رک جاتی ہے، اس گفتگو کا حصہ بننے جا رہی ہے۔۔۔۔ اور یہ آسان نہیں ہے ، اور ہوسکتا ہے کہ یہ منصفانہ نہ ہو لیکن جنگ کا خاتمہ کرنے میں یہ یہی ہوتاہے۔‘اس سے قبل 15 اگست، 2025 کو امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے مابین الاسکا میں تقریباً تین گھنٹے تک چلی طویل ملاقات میں کم از کم ایک بات تو یقینی ہوگئی اور وہ یہ کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ نتیجتاً جنگ بندی بھی نہیں ہو سکی جبکہ ٹرمپ طویل عرصے سے اس کے لیے کوشاں تھے تاکہ روس اور یوکرین کے مابین امن قائم کیا جا سکے۔

الاسکا ملاقات میں پوتن نے تنازع ختم کرنے کی بات تو کی مگر اسی کے ساتھ ’بنیادی اسباب‘ کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیااور آئندہ ملاقات کے لیے’اگلی بار ماسکو میں‘ کا اشارہ دیا۔ ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا مگر دونوں ٹرمپ اور پوتن نے صحافیوں کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔بند کمرے میں بات چیت کا ابتدائی منصوبہ تو یہ تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوتن تنہا ملاقات کریں گے لیکن آخری وقت میں تبدیلی ہوئی اور یہ گفتگو’تھری آن تھری‘ فارمیٹ میں ہوئی یعنی دونوں صدور کے ساتھ ان کے دو دو اہم مشیر بھی موجود تھے۔ امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف تھے جبکہ روس کی جانب سے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور خارجہ پالیسی مشیر یوری اوشاکوف تھے۔بتانا ضروری ہے کہ اس گفتگو میں یوکرین کے صدر زیلنسکی یا یوکرین کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔

حالانکہ بات چیت کا مرکزی موضوع یوکرین کی جنگ ہی تھی۔ زیلنسکی نے ملاقات سے پہلے کہا تھا کہ روس کی جانب سے جنگ ختم کرنے کا’کوئی اشارہ‘ نہیں ہے مگر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پوتن نے کہا کہ روس، یوکرین میں جاری تنازع کو ختم کرنے میں’ایمانداری سے دلچسپی‘ رکھتا ہے۔ انہوں نے جنگ کو ایک’سانحہ‘ قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ کسی پائیدار معاہدے کے لیے پہلے اس تنازع کے’بنیادی اسباب‘ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ پوتن نے مغربی ممالک اور یوکرین کو متنبہ کیا کہ امن کے عمل میں کسی بھی قسم کی’رکاوٹ‘ یا’نقصان‘ نہ پہنچایا جائے۔ ٹرمپ سے گفتگو میں پوتن نے تنازع کے حل کی سمت میں ایک’ابتدائی نقطہ‘ قرار دیا۔پوتن نے ٹرمپ کے اس دعوے سے اتفاق کیا کہ اگر وہ2020 کے انتخابات کے بعد بھی عہدے پر ہوتے تو یہ جنگ شروع نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا، ’ٹرمپ واضح طور پر اپنے ملک کی خوشحالی کی فکر کرتے ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ روس کے بھی اپنے مفادات ہیں۔‘ادھر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اور پوتن کے درمیان’کئی معاملات پر اتفاق رائے ہوا ہے‘ مگر کچھ مسائل ابھی باقی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’ کوئی معاہدہ تب تک نہیں ہوتا جب تک حقیقت میں معاہدہ نہ ہو جائے۔‘ ان کے مطابق، بات چیت میں’پیش رفت‘ ہوئی ہے مگر فی الحال معاہدہ نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا، ’ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے۔‘
کل ملا کر لگتا یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور پوتن کے بیچ یہ بات ہو چکی ہے کہ یوکرین کو ناٹو کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا اور امریکہ خود کو اس روس- یوکرین تنازع میں شامل کرنے سے گریز کرے گا۔

abbasdhaliwal72@gmail-com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS