ہندوستان پر دبائو کی منطق

0

امریکہ کی سیاست میں تضادات کوئی نئی بات نہیں، مگر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے تازہ اقدام نے ایک عجیب و غریب صورت حال پیدا کر دی ہے۔ وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے 20 اگست کو اعلان کیا کہ صدر ٹرمپ نے روس اور یوکرین کی جنگ ختم کرنے کے نام پر ہندوستان پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی تیسری ریاست پر محصولات عائد کرنا روس کو جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ اور کیا یوکرین کے محاذجنگ پر ٹینکوں اور میزائلوں کی گھن گرج تیل کے نرخوں سے رک سکتی ہے؟

ٹرمپ کی دلیل یہ ہے کہ ہندوستان روس سے تیل خرید کر ماسکو کی معیشت کو سہارا دے رہا ہے اور یوں روس کو یوکرین پر چڑھائی جاری رکھنے کی طاقت مل رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روس ہندوستان کیلئے توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ صرف گزشتہ برس کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو روس ہندوستان کی کل درآمدات میں تقریباً 35 تا 40 فیصد تیل فراہم کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دہلی اس خریداری کو محدود کر دے تو کیا مغربی منڈی ہندوستان کی توانائی کی پیاس بجھا سکتی ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر ہندوستانی معیشت پر اس کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ 27 اگست سے ہندوستان پر نئی تجارتی ڈیوٹی نافذ ہو جائے گی۔ پہلے سے عائد 25 فیصد کے علاوہ اب مزید 25 فیصد شامل کر کے کل شرح 50 فیصد کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کو وائٹ ہائوس ایک اچھا قدم قرار دے رہا ہے۔ مگر یہ اچھائی کس کیلئے ہے؟ امریکی عوام کیلئے جو روسی تیل کے بہائو کو محدود کرنے کے بعد زیادہ نرخوں پر توانائی خریدیں گے؟ یا ہندوستانی عوام کیلئے جو پہلے ہی مہنگائی کے بھنور میں پھنستے جا رہے ہیں؟

ٹرمپ کے بیانات میں خود ایک تضاد ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے چند دنوں میں روس-یوکرین جنگ کو ختم کرسکتے ہیں،دوسری طرف تسلیم کرتے ہیں کہ ماسکو اور کیف کے درمیان کوئی معاہدہ ابھی تک نہیں ہوا۔ اگر طاقت کے کھیل کو صرف تجارتی ڈیوٹیوں سے ختم کیا جاسکتا تو نہ ناٹو کو اتنی فوجی امداد دینی پڑتی اور نہ یوکرین کے شہروں کو ملبے کا ڈھیر بننا پڑتا۔

امریکی صدر کا یہ دعویٰ کہ اگر وہ پہلی مدت میں صدر ہوتے تو یہ جنگ کبھی شروع نہ ہوتی دراصل سیاسی اشتہار سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یوکرین پر روسی حملہ صرف ایک شخص کے صدر یا غیر صدر ہونے پر منحصر نہیں تھا بلکہ عالمی طاقتوں کی بے تدبیری، ناٹو کے پھیلائو اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے اس جنگ کو جنم دیا۔

15 اگست کو الاسکا میں ولادیمیر پوتن اور ڈونالڈ ٹرمپ کی ملاقات میں بھی ہندوستان پر اضافی محصولات کا ذکر ہوا۔ یعنی واشنگٹن دہلی کو ایک ایسی پالیسی کا ہدف بنا رہا ہے جو بنیادی طور پر ماسکو کے خلاف ہے۔ یہ بالواسطہ نہیں بلکہ براہ راست دبائو کی حکمت عملی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان اپنی توانائی کی ضرورتوں کو قربان کر کے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرے گا؟ جواب صاف ہے کہ نہیں۔ دہلی نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ اپنی معاشی اور توانائی کی ترجیحات کو کسی بیرونی دبائو کے تابع نہیں کرے گا۔

امریکہ کا یہ قدم ہندوستان کیلئے تشویش ناک ہے۔ صنعتی ماہرین پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر روسی تیل کی درآمدات میں کمی آئی تو ہندوستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھولیں گی۔ اور ہندوستان جیسی معیشت جہاں مہنگائی ہر طبقے کو جکڑ لیتی ہے،وہاں تیل کی قیمتوں میں اضافہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی بحران بھی پیدا کرے گا۔

ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ہندوستان ہمارا دوست ہے لیکن وہ روس سے فوجی ساز و سامان اور تیل خریدتا ہے جو اچھا نہیں دراصل اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ دوستوں کو بھی اپنی شطرنج کے مہرے سمجھتا ہے۔ اور جب کوئی مہرہ واشنگٹن کی مرضی کے مطابق حرکت نہ کرے تو اس پر دبائو ڈالنا امریکی روایت ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے نام پر ہندوستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک سیاسی چال ہے جو بظاہر روس پر دبائو ڈالنے کیلئے ہے مگر حقیقت میں دہلی کو واشنگٹن کے تابع بنانے کا حربہ ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب بھی طاقتور اقوام اپنی پالیسیوں کے ناکام نتائج کو چھپانا چاہتی ہیں تو وہ کمزور یا درمیانی ریاستوں پر ذمہ داری ڈال دیتی ہیں۔ آج ہندوستان اسی کھیل کا نشانہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا محصولات کی یہ دیوار ماسکو کو جھکا دے گی یا دہلی کو مزید محتاط اور خودمختار بنا دے گی؟ وقت کا فیصلہ کچھ اور ہوگا،مگر آج یہ بات صاف ہے کہ ٹرمپ کا اقدام کسی امن کے قیام سے زیادہ سیاسی تماشے کا حصہ لگتا ہے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS