تقسیم کا نوحہ اور سرکار کا انتخابی بیانیہ: ڈاکٹر محمد فاروق

0

ڈاکٹر محمد فاروق

زندگی کے قافلے کو آگے بڑھانے کا سچا قرینہ یہی ہے کہ یادوں کے بوجھ کو رخصت کر کے امید اور تیاری کے چراغ جلائے جائیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر دانش مند معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس! موجودہ حکومت کا حال یہ ہے کہ اسے ہندوستان کے موجودہ مسائل کا کوئی واضح حل سوجھتا نہیںاور مستقبل کے نام پر وہ براہ راست 2047 کی خیالی دنیا میں پرواز کر جاتی ہے۔ حال سے یہ فکری فرار اور مستقبل سے یہ بے تعلق،بے یقینی کی کیفیت ہی ہے جو انہیں بار بار ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ وزیراعظم کا 14 اگست کو ’’یومِ تقسیم ہولناکی‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ،اسی انتخابی تاریخ نویسی اور خود ساختہ بیانیہ کی ایک کڑی ہے، جس کا مقصد زخموں پر مرہم رکھنا نہیں،بلکہ انہیں کرید کر فرقہ وارانہ منافرت کی فصل کاٹنااور ملک کے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانا ہے۔

اگر حکومت واقعی تقسیم کے لرزہ خیز سانحہ پر سنجیدہ ہوتی، اگر اس کے دل میں ان لاکھوں بے گناہ انسانوں کا درد سمایا ہوتا جنہوں نے اس خونی بٹوارے کی قیمت اپنی جانوں، عزتوں اور گھر بار سے چکائی، تو وہ 14 اگست کے بجائے 18 جولائی کی تاریخ کا انتخاب کرتی۔ اس دن، 1947 میں، برطانوی پارلیمنٹ نے ’’ہندوستانی آزادی ایکٹ‘‘ منظور کرکے تقسیم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تھی،جس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خون کی لکیریں کھینچ دی گئیں۔ لیکن حکومت کا مقصد برطانوی سامراج کو مجرم ٹھہرانا نہیں ہے،اس کی تاریخ نگاری ایک ایسے ماہر ڈرائیور کی طرح ہے جو اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے راستے میں آنے والے کسی بھی اسپیڈ بریکر (برطانوی راج اور اس کی مجرمانہ سازشیں) سے بچنے کیلئے گاڑی بغل سے نکال لیتا ہے۔ وہ بڑی مہارت سے تقسیم کا سارا الزام صرف نہرو اور کانگریس پر تھوپ دیتی ہے،جبکہ اس خونی بٹوارے کی بنیاد رکھنے والے اصل کرداروں اور ان کی گہری سازشوں پر ایک دبیز پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کرداروں میں سرفہرست وہ شخصیات ہیں جنہیں یہ حکومت اپنا نظریاتی پیشوا مانتی ہے اور جن کی فکری میراث پر یہ آج بھی فخر کرتی ہے۔

تاریخ کے وہ اوراق جو خون سے لکھے گئے ہیں،چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ 1937 میں احمدآباد میں منعقدہ ہندو مہاسبھا کے قومی کنونشن کی صدارت کرتے ہوئے وی ڈی ساورکر نے دو قومی نظریے کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے نہ صرف اسے نظریاتی بنیاد فراہم کی بلکہ برملا کہا تھا کہ ’’ہندوستان میں بنیادی طور پر دو قومیں ہیں: ہندو اور مسلمان۔‘‘ یہ بیان ایک ایسے نظریے کا سنگِ بنیاد تھا جس نے آنے والے برسوں میں پورے برصغیر کو خونریزی اور تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ سنگھ پریوار کے منظورنظر اور قد آور مورخ،آر سی مجمدار نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’جدوجہدآزادی‘‘ میں اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کی ایک بڑی اور بنیادی ذمہ داری ہندو مہاسبھا پر عائد ہوتی ہے،جس کی قیادت ایک عظیم انقلابی رہنما وی ڈی ساورکر کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ،ہندوستان کے آئین کے معمار،فخر ہند ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’پاکستان یا تقسیم ہند‘‘ (1946) میں ساورکر کے دو قومی نظریے اور ان کے اکھنڈ بھارت کے تصور کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہندو اور مسلم قوم کے درمیان دشمنی کے بیج بونے کے بعد ساورکر یہ کیسے امید کرسکتے ہیں کہ وہ ایک ہی ملک میں،ایک آئین کے تحت پرامن طریقے سے رہ سکیں گے۔‘‘ امبیڈکر نے ساورکر کے اس دوہرے معیار کو بڑی باریک بینی سے بیان کیا کہ ایک طرف تو وہ ہندو قوم کو برتر اور مسلم قوم کو محکوم قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ایک ہی ملک میں دونوں کے رہنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ تضاد ساورکر کی فکری الجھن یا سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی،15 اگست 1943 کو،یعنی آزادی سے پورے چار سال پہلے،ساورکر نے ناگپور میں انتہائی بے باکی سے کہاتھا کہ ’’مجھے مسٹر جناح کے دو قومی نظریے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم ہندو اپنی ذات میں ایک قوم ہیں اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔‘‘ یہ بیان ساورکر کی جناح کے دو قومی نظریے سے ہم آہنگی اور اسے کھلے عام قبول کرنے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔

ان تمام ناقابل تردید تاریخی حقائق سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تقسیم ایک قومی المیہ تھا جس کی ذمہ داری صرف کانگریس یا نہرو پر ڈالنا محض ایک تاریخی بددیانتی ہے۔ اس کے اصل ذمہ دار انگریز،مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کی وہ تکون تھی جس نے اپنے اپنے مقاصد کے تحت اس ملک کو تقسیم کیا۔ بی جے پی کو یہ بھی یاد دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ 1942 میں جب موہن داس کرم چند گاندھی کی قیادت میں پورا ملک ’’ہندوستان چھوڑو تحریک‘‘ کے نعرے کے ساتھ انگریزوں سے آزادی کی جنگ میں مصروف تھا،کانگریس کے بڑے بڑے رہنما جیلوں میں قید تھے،تب ساورکر نہ صرف اس عوامی تحریک کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے بلکہ ملک بھر میں دورے کرکے ہندو نوجوانوں کو برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دے رہے تھے،اور یہ نعرہ دے رہے تھے: ’’ہندوئوں کو فوجی بنائیں اور قوم کو ہندو بنائیں۔‘‘ یہ ایک ایسا عمل تھا جو انگریزی سامراج کو براہ راست تقویت پہنچا رہا تھا۔ اس تحریک کے دوران جب مختلف صوبوں میں کانگریسی حکومتیں اپنی پارٹی کی ہدایت پر مستعفی ہو رہی تھیں،تب شرمناک حقیقت یہ ہے کہ ہندو مہاسبھا،مسلم لیگ کے ساتھ مل کر سندھ،شمال مغربی صوبہ (NWFP) اور بنگال جیسے صوبوں میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی۔ اس تعاون کا ثبوت برطانوی کمانڈر ان چیف کی جانب سے ساورکر کا شکریہ ادا کرنا بھی ہے، جس نے ہندوؤں کو برطانوی فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ یہ تاریخ بی جے پی لاکھ کوشش کرلے،اسے مٹا نہیں سکتی۔

وزیراعظم مودی نے ’’یوم تقسیم ہولناکی‘‘ پر اپنی ایکس (سابقہ ٹویٹر) پوسٹ میں لکھا کہ یہ دن ہمیں تاریخ کے اس المناک باب کی یاد دلاتا ہے،جس میں لاکھوں لوگوں کو ہنگاموں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑااور بے شمار لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اگر وہ واقعی ان لوگوں کے درد اور قربانیوں کو محسوس کرتے ہیں،اگر ان کا یہ بیان محض سیاسی بیان بازی نہیں،تو پھر ان کی اپنی پارٹی کے اندر موجود ان عناصر اور دائیں بازو کی ان تمام تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کرتے جو آج بھی سماج میں نفرت کا زہر گھول کر آئے دن ایک نئی تقسیم کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟ وزیراعظم کو خود بھی یہ منافقت چھوڑنی ہوگی کہ وہ ایک طرف تقسیم کے درد کی بات کریں اور دوسری طرف ’’کپڑوں سے شناخت‘‘ کی سیاست کریں اور جئے شری رام،جئے جگن ناتھ،بجرنگ بلی کے نام پر ووٹ مانگنا بند کریں۔ یہ طرز عمل نہ صرف سیکولر اقدار کے منافی ہے بلکہ اس سے سماج میں مزید تفریق پیدا ہوتی ہے،جس کا نتیجہ بالآخر تشدد اور نفرت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

تقسیم کا المیہ صرف سرحدوں کی تقسیم نہیں تھا،یہ انسانیت کی تاریخ کا ایک ایسا المناک واقعہ تھا جس میں 10 سے 20 ملین افراد بے گھر ہوئے، انہیں اپنا آبائی گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑااور 2 لاکھ سے 20 لاکھ کے قریب انسانوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ اس دوران عصمت دری،لوٹ مار اور آتش زنی کے بے شمار واقعات پیش آئے جس نے انسانیت کو شرمسار کر دیا۔ یہ ایک ایسا گہرا زخم ہے جسے بار بار کریدنے سے صرف درد ہی بڑھے گا،لیکن اگر اس کی یاد منانی ہی ہے تو پھر پوری دیانتداری اور ایمانداری سے منانی چاہیے۔ اسے محض مسلمانوںکے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کرنایا اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ایک آلہ کار بنانا،ان لاکھوں بے گناہ روحوں کی توہین ہے جنہوں نے اس تقسیم کا عذاب جھیلا تھا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ 1947 میں، مذہب کی بنیاد پر پاکستان بن جانے کے باوجود،ہندوستان میں لاکھوں مسلمان خاندانوں نے اپنے مادر وطن کو ترک کرنے سے انکار کر دیا تھااور یہیں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ لیکن آج ان ہی کی اولادوں سے ہر موڑ پر،ہر مسئلے پر ان کی حب الوطنی کا ثبوت مانگا جاتا ہے اور انہیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم نریندر مودی واقعی ہندوستان کو ایک مضبوط،متحد اور پرامن ملک بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ان سب پر روک لگانی ہوگی اور خود کو ایک طاقتور اور غیر جانبدار وزیراعظم ثابت کرنا ہوگا۔ اگر وہ یہ سب نہیں کر سکتے اور نفرت کی اس سیاست کو لگام نہیں دے سکتے تو لال قلعے کی فصیل سے چاہے وہ کتنی ہی بڑی اور پرشکوہ باتیں کہیں،ان کا مطلب کھوکھلا ہی رہے گا اور تقسیم کی یاد منانے کا یہ عمل محض ایک سیاسی شعبدہ بازی بن کر رہ جائے گا،جس کا مقصد زخموں کو بھرنا نہیں،بلکہ انہیں ووٹوں کیلئے ہمیشہ ہرا رکھنا ہے۔

farooquekolkata@yahoo.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS