خواجہ عبدالمنتقم
ہمارے پیغمبرآنحضرتؐ کے اوصافِ حمیدہ میں ہر طرح کی خدمت، احباب سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے معیاری برتاؤ،سادگی،ادب و تواضع، راست گفتاری، بے خوفی، جرأت، بلندہمتی، اولوالعزمی، غرباء پروری، فقرا و مساکین کی دستگیری، جودو سخا، صد ق و امانت، صلہ رحمی، بیوگان کی مدد، دشمنوں کے ساتھ رحم، عفو ودرگزر، معافی، جنگ میں پامرو ی و شجاعت، فوجی قیادت،جنگی حکمت عملی، صلح میں نرمی، کمالِ عبدیت، اللہ پر توکل، نصرت وتائید الٰہی پرغیر متزلزل یقین کامل، صبر واستقامت، حلم وبرداشت، ہمسایوں کی خبرگیری، ازواجِ مطہرات اور اہل خانہ سے محبت، بلاامتیاز بنی نوعِ انسان سے ہمدردی، عدل و انصاف،جانوروں اور پرندوں کے حقوق تک کا خیال، انتظامی صلاحیت، حکمت و فراست، صدق و امانت وغیرہ، غرض یہ کہ وہ کون سی خوبی ہے، جو اس ذاتِ گرامی میں بدرجہ اتم نہیںپائی جاتی تھی۔آپ کی یہی خوبیاں تھیں جن کے باعث دنیا کی چنندہ عظیم ترین قابل احترام شخصیتوں نے آپ کے بارے میں مندرجہ ذیل خیالات پیش کیے۔ ان شخصیتوں کی ایک طویل فہرست ہے مگر یہاں ہم اس کو چند شخصیتوں کا حوالہ دے کر ایک اشاراتی اظہار کے طور پرپیش کررہے ہیں۔
مہاتماگاندھی کا قول ہے ’میرے اس تجسس نے کہ وہ فرد واحد کون ہے جو کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے اور وہ کس کردار کا حامل ہے اور اس نے کیسی زندگی گزاری ہے مجھے یہ جانکاری حاصل کرنے کا موقع دیا کہ یہ شخص محمدؐ ہے اور میں پہلے سے بھی زیادہ اس بات کا پوری طرح قائل ہوگیا کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ یہ تو پیغمبراسلام کی سادگی، انہماک، رفیقوں اور پیروؤں کے تئیں خلوص، قول کی پابندی،شجاعت، بے خوفی، خدا کی ذات میں یقین کامل اور اپنے مشن کے تئیں صدق دلی کا نتیجہ تھا۔
انگلستان کا مشہور مفکر کارلائل اپنی کتاب ’ہیروزاینڈ ہیروزور شپ‘ میں ہادیِ اسلامؐ کے متعلق لکھتا ہے ’اس سیاہ وروشن چشم، فراخ حوصلہ، کریم النفس، مہذب اور درد بھرے دل والے بوریہ نشینؐ کے خیالات جاہ وحشمت طلبی سے کوسوں دور تھے۔ اس شخصؐ کی عظمت میں متانت کی شان نظر آتی تھی۔ اس کا شمار ان لوگوں میں سے تھا جن کا شعار سچائی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا اور جو فطرتاً بے لوث اور سچے ہوتے ہیں۔‘
یوروپی دانشور ڈاکٹر ڈیلا اپنی کتاب ’Our Perfecting World‘ میں لکھتا ہے ’مذاہب عالم میں تنہا اسلام رنگ ونسل کی تمیز سے مبرا رہا ہے۔ یہ فراخدلی سے اسلام قبول کرنے والوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔‘
مغربی دنیا کے نامور اسکالر پروفیسر آسٹن میور(نیوزی لینڈ) کا قول ہے ’انسان آج بیسویں صدی میں انسانی وحدت اور اخوت کے قیام کے جس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اسلام نے چودہ سو سال پہلے اسی مقصد کو حاصل کرنا اپنا نصب العین قرار دیا تھا۔
پروفیسر راما کرشنا راؤ کا قول ہے کہ عالمی اخوت وانسانی مساوات کے اصول کو پیغمبر اسلامؐ نے ہی عملی شکل دی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی اہمیت شاید کچھ دنوں بعد پوری طرح سمجھی جاسکے، جب بین الاقوامی شعور جاگے گا، نسلی تعصبات ختم ہوجائیںگے اور انسانی اخوت ومساوات کا ایک طاقتور نظریہ وجود میں آئے گا۔
کاش ہم مسلمانوں نے بھی حضرت محمد مصطفی ؐ کے ان اوصاف کو اپنی عملی ز ندگی کا حصہ بنایا ہوتا اور اپنے اخلاقی معیار کو بلند رکھا ہوتا تو آج صورت حال با لکل مختلف ہوتی۔ آج حالت یہ ہے کہ بھائی بھائی سے لڑرہا ہے، مختلف ممالک کے لوگ جو ایک ہی خدا اور ایک ہی پیغمبر کو ماننے والے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف لڑرہے ہیں۔ہم تہمت دوسروں پر لگاتے ہیں کہ وہ ہمارے مسلکی اختلافات کو اجاگر کرکے ہمیں بانٹ رہے ہیں مگر کیا یہ ہماری کج روی نہیں کہ ہم اتنی چھوٹی سی بات کو نہ سمجھیں کہ کوئی بھی کسی کو تب تک نہیں بانٹ سکتا جب تک وہ خودبنٹنے کے لیے تیار نہ ہو۔
ہرعمر رسیدہ شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا دور موجودہ دور سے کہیں بہتر تھا۔ پہلے کے لوگوں میں محبت، مروت، مؤدت، آپسی بھائی چارہ واخوت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔آج ہر شخص مال ودولت اورشان وشوکت کے پیچھے بھاگ رہاہے۔ذراسی دولت آجائے یا کوئی عہدہ مل جائے یا سیاسی میدان میں کچھ عزت حاصل ہوجائے تواحساس برتری میں مبتلاہوجاتاہے اور فخروتکبرسے اس کا توازن بگڑجاتاہے۔ بزرگوں کا مقولہ تھاکہ پھل دار درخت کی ٹہنیاں نیچے جھک جاتی ہیں مگر آج صورتحال کچھ اورہی ہے۔جہاں سائنس و ٹکنالوجی نے ہماری روز مرہ زندگی کو انتہائی آرام دہ بنادیاہے، وہیں اس نے ہمارے باہمی میل جول میں رخنہ اندازی کا کام بھی کیاہے۔پہلے مہمان کی آمد پر اس کا مخلصانہ پرتپاک خیر مقدم کیا جاتا تھا خواہ آنے والا غریب ہے یا امیر، اپناہے یا پرایا۔اس کی جگہ اب تصنع، نقلی مسکراہٹ اور رسمی خاطر داری نے لے لی ہے۔پہلے بڑے چھوٹے کا لحاظ تھامگر یہ لحاظ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا چلا گیا۔ اس کی دو وجوہات ہیں:پہلی وجہ ہے انحطاط اقدار اور دوسری وجہ ہے بزرگوں کے رویے میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی نہ آنا۔جہاں بھی اعتدال پسندی سے کام لیا گیا اور والدین نے بچوں کو اچھی تربیت دی، وہاں مثبت نتائج برآمد ہوئے۔
ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ اسلام میں پڑوسیوں کی کس قدر اہمیت ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ شاید ہی دومسلم پڑوسیوںکے تعلقات اچھے ہوں۔ یا تو وہ ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہوں گے کہ قورمہ، بریانی کا لین دین ہورہاہوگایا اتنے دور ہوجائیںگے کہ سلام،دعا بھی بند ہوجائے گی اور ایک دوسرے میں موجود یا غیر موجود عیوب کو اس طرح اچھالاجانے لگے گا کہ یہ سب باتیں منظرعام پر آجائیں۔آج المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنی پریشانیوں سے اتنا پریشان نہیں ہیںجتناکہ دوسروں کی خوشحالی یا آسودگی سے پریشان ومضطرب ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ آپسی تعلقات شادی بیاہ میں شرکت تک محدود ہوگئے ہیں۔ بیماری تک میں بھی ایک دوسرے کی عیادت سے کترانے لگے ہیں۔ البتہ اگر کسی ایسے رشتہ دار یا اس کے گھرکے کسی فرد کو چھینک بھی آجاتی ہے جو معاشرے میں اپنااعلیٰ مقام رکھتاہے تواس کے دولت کدے پر عیادت کرنے والوں کی بھیڑلگ جاتی ہے۔ہر کوئی اسے اپنا چچا یا تایابنا لیتا ہے۔
اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ کچھ لوگ ہر وقت قرآن وحدیث کی بات کرتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس کی اسلامی تعلیمات سے کوئی مطابقت ہی نہیں۔ وارثوں کو شطرنجی چال کے ذریعے ان کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ یتیموں تک کی جائیداد پر قبضہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ دو نمبر کا کاروبار کرکے اچھی کمائی کی جاتی ہے۔ ٹوکن کے طور پرزکوٰۃدے کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کا فریضہ ادا کردیا؟ شادی بیاہ اور دیگر رسموں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر تعلیمی ادارے قائم کرنے یا ان کی مدد کرنے کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ آج بھی مسلم محلوں میں بہت سے نوجوان شراب نوشی، نشیلی اشیاء کے استعمال اور قمار بازی جیسی برائیوں کے شکار ہوگئے ہیں۔ اس میں صرف بچوںکی ہی خطا نہیں بلکہ بڑے بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ وہ بروقت اصلاحی کارروائی کرنے کے بجائے ان کے عیوب چھپانے میں لگے رہتے ہیںجس سے انہیں اور شہ ملتی ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
amkhwaja2007@yahoo.co.in