ہندوستانی سیاست اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں نائب صدر کا انتخاب آئینی منصب پرتقرری کی بجائے جمہوریت کے مستقبل اور نظریاتی صف بندی کا سوال بن چکا ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی انتخاب ہے لیکن دراصل یہ ایوان بالا کے کردار،آئینی قدروں کی پاسداری اور سیاسی طاقت کے درمیان ایک کشمکش ہے۔ 9 ستمبر کو ہونے والے اس معرکے میں اپوزیشن کے ’انڈیا‘ الائنس نے سپریم کورٹ کے سابق جج بی سدرشن ریڈی کو امیدوار بنایا ہے،جبکہ حکمراں این ڈی اے نے مہاراشٹر کے گورنر سی پی رادھا کرشنن کو میدان میں اتارا ہے۔ ان دو شخصیات کی شناخت ہی اس انتخاب کے اصل رخ کو واضح کرتی ہے۔
بی سدرشن ریڈی کی پوری زندگی قانون اور انصاف کیلئے وقف رہی ہے۔ 1946 میں تلنگانہ میں پیدا ہوئے اور 1971 میں وکالت کے میدان میں قدم رکھا۔ بتدریج آندھرا پردیش ہائی کورٹ،گوہاٹی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج بنے۔ 2011 تک ان کی عدالتی خدمات آئینی وقار اور عوامی انصاف کی گواہی دیتی رہیں۔ وہ گوا کے پہلے لوک آیکت بھی رہے اور اگرچہ ان کی مدت مختصر تھی مگر ان کی شہرت ایک نڈر، غیرجانبدار اور اصولی جج کے طور پر آج بھی زندہ ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنیاد پر اپوزیشن انہیں ایک علامتی امیدوار کے طور پر پیش کر رہی ہے تاکہ یہ پیغام دیا جائے کہ جمہوریت اب بھی سانس لے رہی ہے اور آئینی قدروں کے پاسبان اب بھی موجود ہیں۔
اس کے برعکس سی پی رادھا کرشنن کا سفر خالصتاً سیاسی ہے۔ 1957 میں تمل ناڈو میں پیدا ہونے والے رادھا کرشنن راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ رہے اور بی جے پی کے اندر مضبوط جڑیں قائم کیں۔ وہ دو بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے،مختلف ریاستوں میں گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں اورآج وزیراعظم مودی اور بی جے پی قیادت کے قریب ترین سیاسی چہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی نامزدگی ان کی ذاتی اہلیت سے زیادہ اس نظریاتی وابستگی کی علامت ہے جس کے ذریعے بی جے پی ایوان بالا پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
اعداد و شمار کے اعتبار سے یہ مقابلہ یکطرفہ دکھائی دیتا ہے۔ 781 اراکین پارلیمنٹ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور ان میں سے کم از کم 422 کی حمایت این ڈی اے کو حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رادھا کرشنن کی جیت تقریباً طے ہے۔ اپوزیشن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے مگر ان کے نزدیک یہ انتخاب محض عددی برتری کا نہیں بلکہ جمہوری اقدار کے تحفظ کا امتحان ہے۔ اسی لیے کانگریس سے لے کر ترنمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی تک سب نے متفقہ طور پر ریڈی کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس انتخاب کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں امیدوار جنوبی ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریڈی تلنگانہ کے نمائندہ ہیں جبکہ رادھا کرشنن تمل ناڈو سے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا سیاسی دائو ہے۔ بی جے پی ہمیشہ سے جنوب میں کمزور رہی ہے،اس لیے وہ رادھا کرشنن کے ذریعے یہاں اپنی موجودگی کو نظریاتی اور علامتی طور پر مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ جنوب کے عوام کی نمائندگی اقتدار پرست سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ آئینی شعور رکھنے والی شخصیات کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے۔
یادرہے کہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب موجودہ نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ نے اچانک صحت کی وجوہات بتا کر استعفیٰ دے دیا۔ پس پردہ اختلافات کی افواہوں نے اس پہلو کو مزید نمایاں کر دیا کہ اعلیٰ آئینی عہدے بھی اقتدار کی کھینچا تانی سے محفوظ نہیں ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ انتخابی نتیجہ زیادہ پیچیدہ نہیں۔ بی جے پی کی مشینری رادھا کرشنن کو نائب صدر کے عہدے تک پہنچا کر ہی دم لے گی۔ مگر اس انتخاب کی معنویت فتح و شکست سے آگے بڑھ کر ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہندوستان نے اپنے نائب صدر کیلئے ایک غیرجانبدار اور آئینی قدروں کے پاسدار شخص کو نظر انداز کیا یا ایک سیاسی وفادار کو چنا۔ اپوزیشن کی حکمت عملی صاف ہے کہ وہ ایک ہارے ہوئے کھیل کو بھی جمہوری بیانیے کے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔یوں یہ انتخاب محض اعداد و شمار کی جنگ نہیں بلکہ نظریات کی ٹکر ہے۔ طاقت کے سامنے سچ کہنے کا حوصلہ اور آئینی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی جرأت ہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ بی سدرشن ریڈی کی امیدواری اسی عزم کا اعلان ہے،چاہے ووٹوں کی گنتی کچھ بھی کہے۔
edit2sahara@gmail.com