’گریٹر اسرائیل‘ کا خواب اور عالم اسلام کی بے بسی : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے ’گریٹر اسرائیل‘ کے اپنے تصور کے عزم کا اظہارکرکے نہ صرف پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا،بلکہ عالم اسلام میں بھی بے چینی پیدا کردی ہے۔انہوں نے اسرائیل کے نشریاتی ادارے ’آئی24‘ سے کہا کہ دنیا میں یہودیوں کی ایسی نسلیں ہیں،جو یہاں آنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔یہ نسلیں ہمارے بعد آئیں گی۔ ’عظیم تر اسرائیل‘ کی اصطلاح1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل اور اس کے قبضے والے علاقوں مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ،مصر کے جزیرہ نما سینا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جا تی ہے۔اس وژن سے خود کو بہت زیادہ اور دل سے جڑا محسوس کرنے والے نیتن یاہونے کہا کہ ’ گریٹر اسرائیل‘ کا تصور لیکوڈ کی سیاسی روایت کا بنیادی اصول ہے، جس کی جڑیں صہیونیت میںپائی جاتی ہیں۔ غیرقانونی بستیوں میں توسیع اس نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ غزہ پٹی کے75فیصد حصے پر قابض اسرائیل فلسطینیوں کو جنوب میں منتقل کرنے کی تیاری کررہاہے۔تجزیہ کار غزہ میں نسل کشی کو ایک منصوبے پر عمل درآمد کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب سمیت متعدد عرب ممالک اور علاقائی تنظیموں نے نیتن یاہو کے ’گریٹر اسرائیل‘ کے بیان کی شدید مذمت کی ہے۔اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کا سامنا ہے،اس میں مبینہ جنگی جرائم پر نیتن یاہو کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے وارنٹ گرفتاری اور عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

دراصل1917میں بالفور اعلامیہ کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کو اپنی زمین یہودیوں کو فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن انہوں نے31برس تک مزاحمت اختیار کرتے ہوئے زمینیں فروخت نہیں کیں۔ ادھر صہیونیوں کی آبادکاری اور امریکہ و برطانیہ کی مدد سے فلسطین کی زمین پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا۔آخرکار1947میں اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق فلسطین کو تقسیم کردیاگیا۔حالاں کہ فلسطین کے مسلمان تقسیم کے خلاف تھے،لیکن 55فیصد فلسطین کا علاقہ غاصب صہیونیوں کے لیے مختص کردیاگیا۔دنیا میں امن و امان کے قیام اور انصاف کی رسائی کے لیے تشکیل دی گئی اقوام متحدہ سب سے بڑی ناانصافی کی ذمہ دار بن گئی۔ 1948میں عالمی استعماری قوتوں امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کواس لیے قائم کیا تھا،تاکہ مغربی ایشیائی ممالک میں عالمی استعماری قوتوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ صہیونیوں نے فلسطین کی زمین کا انتخاب اس لیے کیاکہ وہاں سے زمینی اور سمندری راستوں سے ایشیائی ممالک کی افریقی ممالک اور یوروپی ممالک کی ایشیائی و افریقی ممالک تک رسائی کو کنٹرول کیا جاسکے اور سیاسی ومعاشی اعتبار سے دنیاپر نوآبادیاتی نظام کی نئی شکل صہیونزم کے ساتھ جاری رہے۔صہیونیوں نے اپنے جھوٹے اور من گھڑت عقائد سے صہیونی آبادکاروں کو اس بات پر قائل کیا کہ صہیونی دنیا کی سب سے بہترین قوم اور اَﷲ کی پسندیدہ مخلوق ہے۔باقی مخلوقات کو فلسطین کی زمین پر رہنے اور زندگی گزارنے کا حق نہیں۔ان کے نزدیک دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کا قتل اور نسل کشی جائز ہے۔ انہوں نے دریائے نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدیں قائم کر رکھی ہیں۔’ گریٹر اسرائیل‘ کے اس نقشے میں 100فیصد فلسطین، 100فیصد لبنان، 100فیصد اُردن،70فیصد شام، 50 فیصد عراق،50 فیصد کویت،33فیصد سعودی عرب اور30فیصد مصر ی علاقے کے علاوہ ترکیہ کاکچھ حصہ شامل ہے۔ اسرائیل پہلے فلسطین کو مکمل طور پر اپنے تسلط میں لینا اور پھر باقی ممالک کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتاہے،لیکن فلسطین کی مزاحمت نے اس ناپاک منصوبے کی راہ میں بڑی رُکاوٹ کھڑی کردی۔

اسرائیلی وزیراعظم کے ذریعہ بزورطاقت غزہ کو اپنے قبضے میں لینے کے اعلان کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کے محلوں کو خالی کرانا شروع کردیاہے۔ غزہ کے جنوب مشرقی علاقے زیتون کو فوری طور پر خالی کرنے کے اعلان کے ساتھ کئی رہائشی عمارتوں کو دھماکوں سے اڑا دیاگیا۔جنوبی شہرخان یونس پر متعدد فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ کے آغاز سے اَب تک 61 ہزار 776فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 54ہزار 906افراد زخمی ہوچکے ہیں۔اسرائیلی فوج مرحلہ وار غزہ پر قبضہ اور قتل عام کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ غزہ کے محصور اور بدحال لوگوں کی صورت حال بدترین ہوچکی ہے۔ غذائی اور طبی امداد نہیں کے برابر ہے اور محفوظ مقامات کا فقدان ایک بڑے المیے کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔اقوام متحدہ جنگ کے پھیلاؤ کے خطرات پر شدید تشویش اور مذمت کر رہا ہے، لیکن بے خوف اسرائیل مسلسل فلسطینیوںکی نسل کشی کر رہا ہے۔

بچے گولیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جولائی میں غزہ پٹی میں13,000بچے شدید غذائی قلت کے باعث اسپتال میں داخل کیے گئے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانیت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔غزہ کو زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کی نہیں،بلکہ انسانی تباہی کے طور پر سمجھنا ہوگا۔یہ ایک ایسی بڑھتی ہوئی خلیج ہے،جو ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانیت کے ضمیر کو زخمی کررہی ہے۔اسرائیلی بمباری میں شہر رہائش کے قابل نہیں رہے۔عبادت گاہیں، اسکول اور اسپتال ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔غزہ میں غذا، پانی، صحت اور بجلی کی سہولتیں تباہ ہو چکی ہیں۔فلسطینی اتھارٹی نے نیتن یاہو کے بیان کو فلسطینی عوام کے حقوق کی کھلی نفی اور خطرناک اشتعال انگیزی قرار دیا۔ قطر نے کہا کہ یہ سوچ تکبر اور قبضے کی پالیسی کی عکاس ہے،جو خطے میں بحران اور تنازعات کو ہوا دیتی ہے۔ مصر نے اسے خطے میں امن اور استحکام کی کوششوں کے منافی قراردیتے ہوئے مذاکرات کی بحالی اور دوریاستی حل پر زور دیا۔اُردن نے نیتن یاہو کے الفاظ کو خطرناک اور اشتعال انگیز اضافہ بتایا۔یمن نے فلسطینی عوام کی غیر متزلزل حمایت دوہراتے ہوئے عالمی برادری خصوصاً سلامتی کونسل سے اسرائیلی رہنماؤں کو جوابدہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان نے غزہ سے فلسطینیوںکی جبری بے دخلی کی اسرائیلی سازش کی مذمت کرکے مستردکیااور بین الاقوامی برادری سے ایسے اشتعال انگیز تصورات کو یکسر مسترد کرنے کی گزارش کی۔یہ اقدامات بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اصولوں اور متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔بین الاقوامی برادری کو اسرائیل کو خطے کو غیر مستحکم کرنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبوں اور آبادکاری کی پالیسیوں کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔فلسطینی عوام کو تاریخی اور قانونی طور پر اپنی سرزمین پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست قائم کرنے کا حق ہے۔عالمی برادری کو متنبہ کیاگیا کہ اسرائیلی قبضے کی یہ پالیسیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اورعلاقائی و عالمی امن وسلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد الخلیلی نے صہیونی وزیراعظم کے ’گریٹر اسرائیل ‘کے منصوبے کو ایک ایسا سازشی خواب قرار دیا،جس کی طویل تاریخ ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت لینی چاہیے،جنہوں نے اس غاصب حکومت سے وفاداری کا اظہار کیا،رقم دی اور ہتھیاروں سے اس کی حمایت کی۔حالاں کہ ان کے سامنے ایمانی اتحاد اورحق کی حمایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

غزہ کے تعلق سے عالم اسلام اتنا بے بس ہے کہ وہ بیان بازی کے حصار سے باہر نکلنے کی جدوجہد تک نہیں کر پا رہا ہے۔اگراس خطے کی حکومتیں غزہ اور لبنان کی مدد کرنے سے قاصر ہیںتو پھر ان تمام حکومتوںکو یہ جان لینا چاہیے کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے اور منصوبے کے تحت اسرائیل ایک نہ ایک دن عرب حکومتوں سے بھی اپنے معین کردہ اور بیان کردہ علاقوں کو چھین لے گا۔غزہ میں فلسطین کی جنگ صرف فلسطینیوں کی جنگ نہیں،بلکہ ان تمام عرب ریاستوں کی بقا کی جنگ بھی ہے،جن کا ذکر اسرائیل نے اپنے ’ گریٹر اسرائیل ‘ کے منصوبے میں کر رکھا ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
jafrikanwal785@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS