ٹرمپ کی پالیسیاں ایک معمہ، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا: صبیح احمد

0

صبیح احمد

جب سے ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں عالمی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ بین الاقوامی سطح پر سفارتی حلقوں میں غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں ایک معمہ بنی ہوئی ہیں، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔انتخابی مہم کے دوران اور بعد میں بھی بہت سے ایسے امور ہیں جن پر ٹرمپ اپنے موقف بدلتے رہے ہیں۔ عالمی رہنما پس و پیش میں ہیں کہ دنیا کے اس نئے ’داروغہ‘ کے حوالے سے کس طرح کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ میں کاروبار کی دنیا کے ماہر اس کھلاڑی کو خود پتہ نہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں کی سیاسی، سماجی اور سفارتی صورتحال کیسی ہے۔ عالمی سیاست کس طرح چلتی ہے، مختلف ملکوں کے آپسی تعلقات اور ان سے وابستہ امریکی مفادات کیا ہیں؟ ان کی ٹیم میں بھی کم و بیش انہی کے ہم مزاج اور ہم خیال لوگ شامل ہیں جن کی نا تجربہ کاری کا ہی نتیجہ ہے کہ ٹرمپ کے موقف میں ابھی تک وہ استحکام دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے جس کی ایک امریکی صدر سے توقع کی جاتی ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے کافی سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ پاکستان اور چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے بحیثیت صدارتی امیدوار انہوں نے کہا تھا کہ ’ یہ ہمارے دوست نہیں اور ہمیں ان سے اپنی سوچ کے برعکس غالباً مختلف طریقے سے معاملات طے کرنے ہوں گے‘ لیکن صدر منتخب ہونے کے بعد ان کے نظریات یکسر بدل گئے۔ پاکستان آج ایک نیوکلیائی طاقت کا حامل امریکی حلیف ملک ہے جسے گزشتہ 2 دہائیوں میں اربوں ڈالر کی امریکی امداد بھی ملی ہے۔ حالانکہ صدر اوباما کے دور حکومت میں ان تعلقات میں کشیدگی آئی اور پاکستان کے حریف ترین ملک ہندوستان سے امریکہ زیادہ قریب ہوگیا۔ لیکن اب ٹرمپ نے پاکستان کو پھر سے اپنے قریب کر لیا ہے اور دوسری جانب ہندوستان پر50 فیصد ٹیرف لگا کر ایک طرح سے ’تجارتی جنگ‘ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مالی امداد اور پاکستانی فوج کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کے باوجود پاکستان ان دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ بنا ہوا ہے جو امریکہ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

ایک مشہور نظریہ ہے جسے ’نظری انتشار‘(chaos theory) کہا جاتا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایمیزون کے جنگل میں ایک تتلی اپنے پر ہلائے تو دنیا کے کسی اور حصے میں طوفان آ سکتا ہے۔ اس نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی پیچیدہ اور جڑے ہوئے نظام میں کوئی معمولی سی تبدیلی کہیں اور بڑے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ یقینا یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ’ٹرمپ‘ اور ’انتشار‘ جیسے الفاظ ایک ہی جملے میں استعمال ہوئے ہوں۔ ان کی صدارت کے ابتدائی 6 ماہ میں ایسے لاتعداد حیران کن اور غیر متوقع لمحات پیدا ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی بذات خود ’نظری انتشار‘ کی عملی مثال ہے، جس کے تحت درآمداتی محصولات اتنی تیزی سے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں کہ سر چکرا جائے۔ درجنوں ممالک کو اس بنیاد پر سزائیں دی گئی ہیں کہ وہ امریکہ سے تجارتی معاہدے پر متفق نہیں ہوسکے۔

یہ اس نئی طرز حکمرانی کی مثال ہے جہاں ایک آمرانہ رجحان رکھنے والا صدر دھونس، دھمکی اور مالیاتی سزاؤں کے ذریعہ اپنا ایجنڈا مسلط کرتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ کہا کرتے تھے کہ امریکی صدر کو قومی بیانیہ تشکیل دینے کی غیرمعمولی طاقت حاصل ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اس تصور کو ایک نیا اور خطرناک رخ دے دیا ہے۔ ان کے پہلے 6 ماہ کے دوران امریکہ کی بڑی قانونی فرموں کو بلیک میل کیا گیا۔ بے بنیاد وجوہات پر انہیں خبردار کیا گیا کہ اگر وہ صدر کی پسندیدہ وجوہات کے لیے مفت خدمات فراہم نہیں کریں گے تو انہیں اربوں ڈالر کے سرکاری معاہدوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ وکلا اسے ’خالص بلیک میلنگ‘ قرار دے رہے ہیں۔ بلیک میلنگ ایک نا پسندیدہ لفظ ہے، لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ خواہ خودمختار ملک ہو، میڈیا ادارہ، تعلیمی ادارہ یا قانونی فرم، اگر کسی نے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کیا تو اسے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہندوستان پر یہ کہتے ہوئے بھاری ٹیرف لگا دیا کہ وہ روس سے بڑے پیمانے پر تیل کی درآمد کرنے کی وجہ سے یوکرین میں روس کی جنگ کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ چند دن پہلے یوروپی یونین نے روسی تیل پر اپنی 18ویں پابندیوں کا پیکیج عائد کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یوروپی یونین نے خود گزشتہ مہینہ اپنی گیس کا 12 فیصد حصہ روس سے درآمد کیا اور کسی نے اس پر یوکرین میں جنگ کی مالی معاونت کا الزام نہیں لگایا۔ حتیٰ کہ خود امریکہ بھی روس سے افزودہ یورینیم درآمد کرتا رہا ہے اور کسی نے اس پر روس کی جنگ کی مالی معاونت کا الزام نہیں لگایا۔

کیا ٹرمپ انتظامیہ کو ان معاملات کا علم نہیں؟ لہٰذا جو کچھ ٹرمپ انتظامیہ ہندوستان کی روسی تیل کی درآمدات کے بارے میں کہہ رہی ہے، وہ دراصل ہندوستان پر تجارتی معاہدہ کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ہندوستان ’امریکہ پہلے‘ کے اصول پر مبنی اقتصادی اور تزویراتی اہداف حاصل کرے۔ ان کے ہندوستان سے بڑے مطالبات میں تجارتی خسارے کو کم کرنا، امریکی مصنوعات خاص طور پر زرعی شعبے (جیسے سویا بین اور جینیاتی طور پر تیار شدہ مکئی) اور ڈیری مصنوعات کو ہندوستانی منڈی میں داخل ہونے دینا اور ہندوستان کی بلند ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں کو کم کرناشامل ہے، جنہیں وہ ’سب سے سخت اور پیچیدہ‘ قرار دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے یکم اگست 2025 سے ہندوستانی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف نافذ کیا اورمزید پابندیوں کی دھمکی بھی دی۔ بالآخر ٹرمپ نے ہندوستان پر اضافی 25 فیصد ٹیرف بھی عائد کر دیا جس سے ہندوستانی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ ہندوستانی برآمدات کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔ دراصل ہندوستان خاص طور پر بحر ہند اور بحرالکاہل خطہ میں چینی اثر و رسوخ کے مقابلہ کے لیے امریکہ کے ساتھ دفاعی اور سلامتی کے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان اور چین کے حوالے سے خطہ کے تنازعات میں سفارتی حمایت چاہتا ہے۔ ہندوستان معاشی، تجارتی اور تکنیکی تعاون بھی چاہتا ہے، ساتھ ہی ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے پیش نظر امیگریشن قوانین اور ہندوستانی آئی ٹی مہارت کے حوالے سے ہم آہنگی بھی چاہتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ خواہ شرائط کے ساتھ ہی سہی، ہندوستان کی زیادہ تر خواہشات پوری کرسکتے ہیں، لیکن ہندوستان ٹرمپ کو وہ سب نہیں دے گا جو وہ چاہتے ہیں اور اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تنازع کے جلد ختم ہونے کے فی الحال آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔

sasalika786@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS