’امریکہ نسل کشی میں شامل‘

0

کیا یہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک کو نظر نہیں آرہا ہے کہ غزہ میں روزانہ ہی لوگ مارے جا رہے ہیں؟ کھانے کی تلاش میں نکلنے والے لوگوں پر بھی گولیاں چلائی گئی ہیں، انہیں بھی مارا گیا ہے، 7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کے بعد اسرائیلی حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ غزہ میں اب تک 61,897 لوگ مارے جا چکے ہیں، 14,222 لوگ لاپتہ ہیں۔ ان کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان گنوا چکے ہیں، کیونکہ غزہ کی بیشتر عمارتیں ملبے میں تبدیل ہوچکی ہیں اور ملبے میں دبے لوگوں کی تلاش ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود جنگ ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اس خواہش کے اظہار کے بعد سے کہ وہ غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنانا چاہتے ہیں، یہ امید معدوم ہوگئی ہے کہ غزہ کی جنگ ختم کرانے میں اسی طرح وہ دلچسپی لیں گے جیسے یوکرین جنگ ختم کرانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اگر غزہ جنگ ختم کرانے سے ان کی واقعی دلچسپی ہوتی تو یہ جنگ ابھی تک جاری ہی نہیں رہتی۔ ان کے زور دینے پر اسرائیل اور حماس دونوں جنگ ختم کرنے کے لیے راضی ہو جاتے لیکن ٹرمپ غزہ جنگ ختم کرانے میں اس طرح دلچسپی نہیں لے رہے ہیں جیسے انہیں لینی چاہیے تھی۔ ان کے بیانات سے یہ لگتا ہے کہ اسرائیل کو ان کی طرف سے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، اس لیے چین کی یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ امریکہ، غزہ کی نسل کشی میں شامل ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے غزہ جنگ کی جنگ بندی کی تمام بین الاقوامی کوششوں کو بار بار ناکام بنایا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جنگ بندی قراردادوں کو سات بار ویٹو کر چکا ہے۔اس پر امریکہ کی طرف سے کیا ردعمل آئے گا، قابل مطالعہ ہوگا مگر جنگ بندی کے خلاف سلامتی کونسل میں بار بار اس کی طرف سے ویٹو کیوں کیا گیا، اس سلسلے میں اسے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے، کیونکہ یوکرین کے انسانوں اور غزہ کے انسانوں میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو بھلے ہی کچھ فرق نظر آتا ہو مگر عالمی برادری کے لیے دونوں جگہ انسان ہی مارے جا رہے ہیں اور اسی لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ دونوں جنگیں ختم ہوں، یوکرین اور غزہ میں امن قائم ہو لیکن امریکی صدر یوکرین جنگ ختم کرانے کے لیے تو کوشاں نظر آتے ہیں، غزہ جنگ میں ان کی حکومت اسرائیل کی حامی سی نظر آتی ہے۔ پھر اسرائیل غزہ جنگ ختم کرانے کے لیے دباؤ کیوں محسوس کرے گا؟

امریکہ میں انسانی حقوق کے سلسلے میں چین کے صدارتی کونسل دفتر برائے اطلاعات عامہ کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں، جسے شنہوا نیوز نے شائع کیا ہے، امریکہ کو ’غزہ میں جاری نسل کشی کا شریک مجرم قرار دیا گیا ہے۔‘ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ چین نے اس رپورٹ کے توسط سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ ہی دنیا بھر کے ملکوں پر نظر نہیں رکھتا، چین بھی اس پر نظر رکھتا ہے۔ امریکہ دیگر ملکوں کو انسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے میں احساس دلاتا ہے تو یہ احساس اسے بھی دلایا جائے گا کہ وہ خود انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے کیا کر رہا ہے۔ یہ چینی رپورٹ 2024 کے حالات پر مبنی ہے۔ اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ’امریکہ، غزہ میں نسل کشی کے ساجھے دار کی شکل میں حرکت کر رہا ہے۔واشنگٹن اسرائیل کو ’’غیر متزلزل فوجی اور سفارتی تعاون فراہم کر رکھا ہے۔‘‘‘

رپورٹ میںاس بات پر امریکہ پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ ’یکطرفہ پابندیوں کا حد سے زیادہ استعمال‘ کرتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ امریکہ دنیا میں ’انسانی بحرانوں کو ہوا دے رہا ہے۔‘اس رپورٹ کے آنے کے بعد غزہ کے حالات بدلیں گے یا نہیں، غزہ جنگ ختم ہوگی یا نہیں، یہ کہنا فی الوقت مشکل ہے، البتہ اس نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ آج تک امریکہ جیسے دنیا کے حاکم کی طرح پیش آتا رہا ہے، یہ اشارہ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ اس کی نظر دنیا کے تمام ممالک پر ہے، اسی طرح چین نے بھی یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کی نظر دنیا بھر کے ممالک کے حالات پر ہے اور ان ممالک میں امریکہ بھی شامل ہے۔ غزہ میں لوگوں کے مارے جانے کی خبروں سے عالمی برادری بے خبر نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غزہ جنگ، اس میں ہونے والی ہلاکتوں اور بھکمری نے امریکہ کی ساکھ گرائی ہے، یہ قابل فہم بنایا ہے کہ امریکی لیڈروں کی انسانیت کی باتوں کا اصل مطلب کیا ہے!

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS