آدی واسیوں کو بیدار کرنے والا سپہ سالار : شیبو سورین

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٓانجہانی آدیواسی رہنما شیبو سورین نے پورے آدی واسی سماج میں بیداری لانے کا کام کیا۔ یہ بیداری کئی سطح کی ہے۔تعلیمی بیداری، سماجی بیداری، معاشی بیداری اور سب سے اہم سیا سی بیداری ہے،جس کے لیے انہوں نے انتھک جدو جہد کی۔زمانے کی خاک چھانی، جنگلوں اور پہاڑوں کو ایک کیا۔ شہروں اور آدی واسی بستیوں میں چپلیں گھِسیں۔جانفشانی اور مسلسل محنت سے دن رات ایک کیے،تب جا کر شیبو سورین نہ صرف آدی واسی قوم کو بیدار کر پائے بلکہ ان میں اپنے حقوق کے لیے جذبہ پیدا کیا،انہیں متحد کیا۔

اس عظیم رہنما کی پیدائش 11جنوری1944میںرام گڑھ ضلع کے گائوں نیمرا میں ہوئی۔ یہیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ان کے والد کا قتل کچھ شر پسند عناصر نے کر دیا،جس کے باعث ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔شیبو سورین سنتھال جن جاتی سے ہیں۔ان کی شادی روپی کسکوسے ہوئی۔ان کے تین بیٹے درگا سورین( جاما سے سابق ایم ایل اے)،ہیمنت سورین ( وزیر اعلیٰ جھار کھنڈ) ،بسنت سورین ( دمکا سے ایم ایل اے )اور ایک بیٹی انجلی سورین ہے۔
شیبو سورین دشنوم گرو بھی کہلاتے ہیں۔آدی باسی سیاست میں شیبو سورین پہلی مرتبہ راجیہ سبھا پہنچے۔وہ تین بار ریاست جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ رہے۔2005میں 10 دن کے لیے،پھر2008سے 2009 تک اور2009 سے 2010 تک وزیراعلیٰ رہے۔آپ دمکا سے 1980 سے 1984، 1989 سے1998 اور 2002 سے2019 تک ایم پی رہے۔ تین بار کوئلہ وزارت کے کیبنٹ منسٹر رہے۔ یہی نہیں جھارکھنڈ مکتی مورچہ آج ملک کی ایک اہم سیاسی پارٹی بن چکی ہے۔اوڈیشہ اور دیگر ملحق ریاستوں میں یہ پارٹی پھیلی ہوئی ہے۔پہلے یہ جھارکھنڈ لیبریشن فرنٹ کے نام سے تھی۔ اس کی بنیادبنود بہاری مہتو،شیبو سورین اور اے کے رائے نے 2 فروری1972 میں رکھی تھی۔اب یہ جے ایم ایم کے نام سے مشہور ہے۔اس کی اسٹوڈنٹس ونگ کو جھارکھنڈ چھاتر مورچہ،یوتھ ونگ کو جھارکھنڈ یوا مورچہ اور خواتین ونگ کو جھارکھنڈ مہیلا مورچہ کے نام سے جا نا جا تا ہے۔شیبو سورین اس کے قومی صدر رہے۔ابھی 2025 میں ہیمنت سورین اس عہدے پر فائز ہوئے۔جے ایم ایم 2023 سے ’انڈیا ‘ کا ایک مضبوط ستون بنا ہوا ہے۔ شیبوسورین کی شبیہ ہمیشہ ایک سیکولر مزاج رہنماکی رہی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلمانوں اور آدیواسی سماج کو ایک کرنے اور زمینی مسائل کو اٹھا نے میں لگا دی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جے ایم ایم کے ابتدائی سیاسی سفر میں ان کا جمشید پور کئی بار آنا ہوا۔یہ 1990کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ گاندھی میدان میں کئی بار انہوں نے(حسن رضوی، سابق ایم ایل اے)ووٹ کے ساتھ ایک نوٹ کی بھی آواز لگا ئی۔آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ مسلمانوںنے جے ایم ایم کو اکثریت میں ووٹ اور نوٹ دونوں دیے اور ایم ایل اے، ایم پی انتخابات میں کامیا ب کیا۔مسلمانوں اور آدی واسیوں کا یہ جوڑ رنگ لا یا۔کانگریس،آر جے ڈی اور ڈی یو کے ہوتے ہوئے جھارکھنڈ کے مسلمانوں نے اب تک جے ایم ایم کو ہی ووٹ دیا۔آدی واسیوں اور مسلمانوں کی کیمسٹری کسی نہ کسی طور اب تک قائم ہے اور یہ صرف اور صرف دشنوم گرو آنجہانی شیبو سورین کی شخصیت کا ہی جادو تھا۔

شیبو سورین کی شخصیت میں غضب کی دلکشی تھی۔انہوں نے آدی واسی سماج کو تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیا۔انہیں بتایا کہ کس طرح تعلیم انسان کو سنوارتی ہے۔اسے خاک کے ذرّے سے سورج بنا دیتی ہے۔ ان کے اندر ایک آگ تھی جو انہیں متحرک رکھتی تھی۔یہ آگ انہیں بچپن میںملی۔جب وہ13-14سال کی عمر کے تھے کہ کچھ ساہو کاروں نے ان کے والد سوبرن مانجھی کا قتل کرا دیا تو بدلے کی آگ ان میں سما گئی تھی۔اس آگ نے ساہوکاروں اور زمین داروں کے خلاف سماج کو بیدار کرنے کا سخت چیلنج ان کے سامنے پیدا کیا تھا۔آپ نے اس چیلنج کو قبول کیااور ایک زبردست تحریک چلائی،جس میں زر،زمین اور جنگل کی حفاظت کو اپنا خاص ہتھیا ر بنایا۔ساہو کار غلط طریقے سے آدیواسیوں کی زمین پر قبضہ کر لیتے تھے۔ساتھ ہی اپنی بے جا طاقت کے بل پر ان پر ظلم و ستم کیا کر تے تھے۔ شیبو سورین نے آدیواسیوں،یہاں کے باشندوں،دلتوں اور پچھڑوں کو متحد کیا اور انہیںاپنے حق کے لیے بیدار کیا۔انہیں تعلیم، تہذیب، زمین اور جنگل کے لیے متحرک کیا۔آہستہ آہستہ وہ لوگ شیبو سورین کی آواز میں آواز ملانے لگے۔اس اتحاد اور رہنمائی کا پورے جھارکھنڈ پر اثر پڑا۔شیبو سورین کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ جمع ہو نے لگے۔ایسے میں انہوں نے الگ ریاست کی آواز بلند کی۔

جھار کھنڈبننے سے قبل اس کا نام چھوٹا ناگپور تھا۔اسے سائوتھ بہار بھی کہا جاتا تھا۔یہ ریاست بہار کا ہی حصہ تھا۔اس علاقے میں معد نیات کا ذخیرہ تھا۔یہاں کے زیادہ تر خزانے پر بہار کا قبضہ تھا۔بہار سرکاریہاں سے قیمتی معدنیات لے جاتی۔کچھ خزانہ مرکز میں چلا جاتا۔یہاں کے رہنے والے دیکھتے رہتے۔مزدوری کرتے،خون پسینہ ایک کرتے مگر ملتا کیا؟ نہ پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا،نہ کھانے کو تین وقت کھانا اور نہ رہنے کوسایہ دار مکان۔یہاں کے باشندے غریبی میں،ایک وقت روکھا سوکھا کھاتے، ایک دھوتی پہنتے اور جھونپڑیوں میں گزر بسر کرتے۔تعلیم کا تو شائبہ بھی نہیں تھا۔غریبی،بھکمری اورزندگی کی سب سے نچلی سطح پر رہنے والے یہ لوگ ملک کے لیے باعث شرم تھے۔ ملک آزاد ہوگیا تھا مگر لگتا تھا یہ علاقہ اب بھی غلام ہے۔شیبو سورین نے ریاست کو الگ کرنے کی تحریک چلائی۔سب نے ان کا ساتھ دیا۔باہر جانے والی معدنیات پر روک لگا ئی گئی۔ ضلع وار سرحدوں کو سیل کیا گیا۔بہار اور مرکزی سرکاریں ہل گئیں۔ پولیس حرکت میں آئی۔جیلیں بھری گئیں،مگر تحریک جاری رہی۔ شیبو سورین کی 40سالہ محنت رنگ لائی اور 2000میں جھارکھنڈ کا قیام عمل میں آیا۔ جھارکھنڈ ضرور بنا مگر مزہ نہیں آیا۔2005میں جے ایم ایم کا ریاست میں سرکار بنانے کا خواب شر مندۂ تعبیر ہوا۔شیبو سورین نے اپنی دن رات کی محنت میں اس علاقے کو ملک کے نقشے پر لادیا۔آج ملک کی ترقی پذیر ریاستوں میں جھارکھنڈ دوسری ریاستوں سے پیچھے نہیں۔خوشحالی اور جھارکھنڈ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہر طرف امن و امان ہے۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھتی گئی۔

شیبو سورین پر نا گفتہ بہ حالات بھی آئے۔ان پر قتل کے الزامات بھی لگے۔وہ تحریک کے چلتے جیل بھی گئے۔بہار اور مرکزی سر کاریں بھی ان کے خلاف ہو گئیں۔محکمہ ٔ پولیس نے ان کا جینا محال کر دیا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ بہت پہلے ایک بار تحریک کے ہی سلسلے میں انہیں اندرا گاندھی نے گرفتار کر نے کا حکم دیا۔مگر کوئی انہیں گرفتار نہیں کرپایا۔ ایک بار وہ اندرا گاندھی کے بلاوے پر دہلی گئے۔ دونوں کے بیچ کا فی دیر بات ہوئی۔اندرا گاندھی نے انہیں آدی واسیوں کے حقوق کی خاطر لڑنے اور ان کو بیدار کرنے کی صلاح دی، جسے انہوں نے گانٹھ باندھ لیا۔ انہوں نے نئے جوش اور استقلال سے مشن کو آگے بڑھایا۔ اب ان کی تحریک میں الگ ہی شدت اور دھار آ گئی تھی۔

شیبو سورین نے بڑی جانفشانی سے آدی واسیوں، دلتوں، پچھڑوں،پسماندہ طبقات کو نہ صرف متحد کیا،انہیں ہر اعتبار ( تعلیمی،معاشی،سیاسی )سے بیدار کیا۔الگ ریاست کے قیام کے لیے انتھک کوششیں کیں۔الگ ریاست کی تحریک کو عوامی بنایا۔عوام نے قر بانیاں دیں۔جے ایم ایم میں نئی روح پھو نکی۔اسے پوری ریاست میںاوردور دور تک پھیلایا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ آدی واسیوں اور دلتوں سے مسلمانوں کو جوڑنا تھا۔حسین انصاری،حسن رضوی، حافظ الحسن،محمد تاج الدین،ہدایت اللہ خان جیسے لیڈران کی پارٹی نے عزت وتوقیر کی۔

دشنوم گرو اپنا کام کر کے 4اگست 2025میں ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ان کی موجودگی میں ہی ان کے بعد کی نسل یعنی ان کے بیٹے ہیمنت سورین نے جھارکھنڈ کی سیاست میں قدم رکھ دیا تھا اور آج کل وہ جے ایم ایم کے صدر اور ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔مسلمانوں کو ان سے شکایات ہیں، اب تک ریاست میں اردو اکادمی،مدرسہ بورڈ،حج بورڈ نہیں بنا۔آبادی کے تناسب میں انہیں انتخابات میں موقع دیا جائے۔آج بھی مسلمان جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ساتھ ہیں۔بس ان کے مسائل پر بھی حکومت توجہ دے اور انہیں بھی ساتھ لے کر چلے۔

aslamjamshedpuri@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS