سپریم کورٹ میں اس وقت ایک ایسا مقدمہ زیر سماعت ہے جس کی جڑیں صرف انتخابی طریقہ کار تک محدود نہیں بلکہ اس کے دامن میں شہریت کے تعین، آئینی اختیارات کی حدود اور سیاسی مداخلت کے الزامات بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ SIR یعنی خصوصی گہری نظرثانی کے نام پر ہو رہا ہے، ایک ایسا عمل جو الیکشن کمیشن نے بہار اسمبلی انتخابات سے محض چند ماہ قبل شروع کیا اور جس نے لاکھوں ووٹروں کو بے یقینی کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ اعداد و شمار خود اپنی داستان سناتے ہیں۔ ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے تقریباً 65 لاکھ نام غائب بتائے جا رہے ہیں۔ کمیشن کے مطابق 22 لاکھ تو فوت ہوچکے ہیں اور 3.6 لاکھ دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں، لیکن باقی ماندہ تقریباً 35 لاکھ کے اخراج کی بنیاد ایک ایسا عمل ہے جس پر ہی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔سپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت کے دوران وکلا کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی اور ورندا گروور نے عدالت میں صاف کہا کہ یہ سب دائرۂ اختیار سے باہر کا کھیل ہے۔ شہریت کا تعین الیکشن کمیشن کا کام نہیں اور انتخابات سے دو ماہ پہلے کسی کو محض شک کی بنیاد پر ووٹر فہرست سے کاٹ دینا آئینی اور جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آدھار کارڈ،ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ جو برسوں سے سرکاری شناخت کے بنیادی کاغذات سمجھے جاتے ہیں، ان پر بھی کمیشن ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ جسٹس سوریہ کانت نے واضح کیا کہ آدھار کو حتمی شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا،مگر یہ بھی کہا کہ یہ شناخت کی تصدیق کیلئے ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آدھار کو حتمی شہریت کا ثبوت نہیں تو پھر وہ کون سا دستاویز ہے جو ہر شہری کے پاس یکساں طور پر موجود ہو اور جس پر کمیشن مطمئن ہو؟ بہار کے غریب اور دیہی ووٹروں کے پاس آدھار اور راشن کارڈ ہی اصل سہارا ہیں۔ پھر ان سے یہ سہارا چھین کر کمیشن دراصل کس کو فائدہ پہنچا رہا ہے؟
عدالت میں یہ بھی سامنے آیا کہ کئی مقامات پر زندہ لوگوں کو مردہ اور مردہ لوگوں کو زندہ درج کر دیا گیا۔ کپل سبل نے ایک حلقے کی مثال دی جہاں 12 زندہ افراد کو مردہ قرار دے کر فہرست سے خارج کر دیا گیا جبکہ کئی جگہ مردہ لوگوں کے نام برقرار ہیں۔ یہ نہ صرف بی ایل اوز کی غفلت کا ثبوت ہے بلکہ اس امر کا بھی کہ فہرست کی درستی کا عمل محض کاغذی خانہ پری بن چکا ہے۔
سپریم کورٹ نے بظاہر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ محض ڈرافٹ لسٹ ہے، وقت ہے،اعتراضات درج کرائے جا سکتے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ لاکھوں دیہی،ناخواندہ یا روزی روٹی کی تلاش میں دور دراز علاقوں میں گئے لوگ اعتراض درج کرانے کی پیچیدہ قانونی و انتظامی بھول بھلیوں میں کہاں اور کیسے جائیں گے؟ جب الیکشن کمیشن خود کہہ رہا ہے کہ تصدیق کے بعد ہی معاملہ دیکھا جائے گاتو یہ یقین دہانی ان لوگوں کیلئے کھوکھلی سی محسوس ہوتی ہے جن کا نام پہلے ہی ایک غیر شفاف عمل میں کاٹ دیا گیا ہے۔
2003 کے رولز کا حوالہ دے کر 2025 میں لوگوں کو بے دخل کرنے کی دلیل مزید شکوک پیدا کرتی ہے۔ گویا اگر آپ بیس برس پہلے کسی لسٹ میں نہیں تھے، یا اس وقت کا فارم جمع نہ کر سکے تو آج بھی آپ کی شہریت مشکوک ہے۔ یہ منطق نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ عملی طور پر لاکھوں ایسے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہے جو اس وقت نابالغ تھے، یا دور دراز علاقوں میں رہتے تھے ،یا محض انتظامی کوتاہی کا شکار ہوئے۔
SIR کا اصل مقصد بظاہر ووٹر لسٹ سے فوت شدگان اور منتقل شدگان کے نام خارج کرنا تھا،مگر اس کے نتیجے میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوگیا ہے جہاں ہر ووٹر کو اپنی حیثیت ثابت کرنے کیلئے کاغذات کی گٹھری اٹھا کر بی ایل او کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ اور اگر وہ اس کاغذی دنگل میں ناکام ہو جائے تو وہ جمہوریت کی سب سے بنیادی طاقت ووٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔
یہ مسئلہ محض بہار کا نہیں بلکہ ایک خطرناک نظیر ہے جو اگر قائم ہوگئی تو کل کسی بھی ریاست میں انتخاب سے عین پہلے ووٹر لسٹ کی چھلنی سے لاکھوں لوگوں کو چھان کر باہر پھینک دینا معمول بن سکتا ہے۔ جمہوریت کا حسن اس کے جامع اور شمولیتی کردار میں ہے، نہ کہ مشکوک شہریت کی بنیاد پر ووٹ کے حق کو چھین لینے میں۔ سپریم کورٹ کو محض اعداد و شمار نہیں بلکہ اس عمل کے آئینی جواز اور جمہوری اثرات کو دیکھنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ووٹر ہی فہرست سے غائب کر دیا جائے تو انتخابات کا شفاف ہونا محض ایک فریب کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔
edit2sahara@gmail.com