ہند- روس تعلقات اور امریکی جارحانہ پالیسی پر بڑھتی کشیدگی: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

4اگست کی دیر شام امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ہندوستان پر یہ سنگین الزام عائد کیا کہ وہ نہ صرف بڑی مقدار میں روس سے خام تیل درآمد کر رہا ہے بلکہ اسے بین الاقوامی منڈی میں بھاری منافع کے ساتھ فروخت بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے یوکرین جنگ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر ہندوستان کو دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کا مرتکب ٹھہرایا اور دھمکی دی کہ ہندوستانی برآمدات پر مزید ٹیرف عائد کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ پہلے ہی ہندوستانی برآمدات پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کر چکے ہیں۔ٹرمپ کی اس پوسٹ کے چند ہی گھنٹوں کے اندر نئی دہلی سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔ وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ روس سے تیل کی درآمد کے مسئلے پر امریکہ اور یوروپی یونین کا ہندوستان کو نشانے پر لینا غیر مناسب اور انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ بیان میں یاد دلایا گیا کہ یوروپی یونین کے ممالک ماضی میں روس سے توانائی کے بڑے پیمانے پر خریدار رہے ہیں اور اس کے ساتھ کثیر جہتی تجارتی تعلقات بھی رکھتے ہیں۔ خود امریکہ نے بھی اپنے جوہری اور برقی توانائی کے شعبے کے لیے روس سے درآمدات جاری رکھی ہیں، یہاں تک کہ کھاد اور کیمیائی مصنوعات بھی وہاں سے حاصل کی جاتی رہی ہیں۔ وزارتِ خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ہندوستان اپنے قومی مفاد اور اقتصادی تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔اگرچہ سرکاری بیان میں امریکہ اور یوروپی یونین دونوں کا ذکر یکساں انداز میں کیا گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران دونوں کا رویہ یکساں نہیں رہا۔ بلاشبہ دونوں چاہتے ہیں کہ ہندوستان روس سے تیل کی درآمد کم یا بند کرے، لیکن یوروپی یونین نے چند ہندوستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ کوئی ایسا جارحانہ قدم نہیں اٹھایا جیسا کہ ٹرمپ کی طرف سے دھمکیوں کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ اقتصادی دباؤ کا بڑا حصہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کا نتیجہ ہے، نہ کہ یوروپی یونین کی پالیسیوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ نئی دہلی کو اپنی پالیسی میں دونوں کے تئیں ایک جیسا ردِ عمل دینے کے بجائے ان کے ساتھ الگ الگ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ آخر ٹرمپ اتنے جارحانہ موڈ میں کیوں ہیں اور اس صورتحال میں ہندوستان کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب ٹرمپ کے اُن دعوؤں میں پوشیدہ ہے جن میں وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ عہدہ سنبھالتے ہی وہ روس یوکرین جنگ ختم کروا دیں گے۔ ان کے نزدیک صدر جو بائیڈن کی یوکرین پالیسی سراسر ناکام رہی ہے اور وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اگر وہ برسراقتدار آ جائیں تو ماسکو اور کیف کے درمیان امن معاہدہ ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی پر ٹرمپ کا دباؤ کسی حد تک اثرانداز ہوا ہے، مگر روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنی شرائط پر سختی سے قائم ہیں۔ پوتن کا مؤقف ہے کہ یوکرین نہ تو نیٹو اور نہ ہی یوروپی یونین کا رکن بنے گا، اور روس کے اثر و رسوخ کے دائرے میں رہے گا۔ اس کے علاوہ وہ چاہتے ہیں کہ ماسکو کے قبضے میں آئے ہوئے علاقوں کو عالمی سطح پر روس کا حصہ تسلیم کیا جائے۔ ٹرمپ کے نزدیک یہ شرائط غیر مناسب ہیں اور یہی ان کی روس سے بڑھتی ہوئی ناراضگی کا باعث بن رہی ہیں۔ اسی لیے وہ ماسکو کے مختلف ذرائع آمدنی پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

روس کی معیشت کو سب سے بڑا سہارا خام تیل کی برآمدات سے مل رہا ہے۔ اس وقت اس کا تقریباً 80 فیصد تیل چین اور ہندوستان کو فروخت ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں روس ہندوستان کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ نئی دہلی کے لیے یہ سلسلہ بالکل منطقی اور جائز ہے کیونکہ ہر حکومت کی اولین ترجیح اپنے قومی مفاد کا تحفظ ہوتا ہے۔ البتہ بین الاقوامی تعلقات میں بعض اوقات ایسے فیصلوں کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہندوستان کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان اپنی پالیسی پر اٹل رہے گا یا کچھ نرمی دکھاتے ہوئے روس سے تیل کی درآمدات میں کمی کرے گا؟ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ مہینوں میں بعض نجی بھارتی تیل کمپنیوں نے خود ہی روس سے تیل کی خرید میں کمی کی ہے، مگر مجموعی رجحان اب بھی ماسکو کے حق میں ہے۔ اس دوران نئی دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ٹرمپ کے ذاتی تعلقات خوشگوار ضرور ہیں، مگر قومی مفاد کے معاملات میں ذاتی دوستی اکثر پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ اقتصادی محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور دفاعی چیلنج بھی ابھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو پھر سے گرمجوش بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرمپ متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہندو پاک جنگ کے خطرے کو اپنے ثالثی کردار سے ٹال دیا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے دونوں ایٹمی طاقتوں کو تجارت بند کرنے کے خوف سے جنگ سے باز رکھا۔ یہ بیانات اشارہ دیتے ہیں کہ ٹرمپ امریکہ کی پرانی پالیسی کی طرف واپسی کے خواہاں ہیں، جس کے تحت وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اپنے مغربی ہمسائے کے ساتھ تعلقات میں زیادہ نرمی دکھائے اور بحرالکاہل کے خطے میں واشنگٹن کے ساتھ تعاون بڑھائے۔
ہندوستان کے لیے صورتحال اس لیے بھی پیچیدہ ہے کہ ٹرمپ کا رویہ چین کے حوالے سے نسبتاً نرم دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی حکومت کو اندرونِ ملک سیاسی ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایک متوازن حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ موجودہ عالمی حالات میں یکے بعد دیگرے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں، اس لیے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ضروری ہے۔

ادھر روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے بیان دیا ہے کہ امریکہ نوآبادیاتی نظام دوبارہ قائم کرنا چاہتا ہے اور روس گلوبل ساؤتھ یعنی عالمی جنوب کے ممالک سے اپنے تعلقات مزید مضبوط کرے گا۔ تاہم وہ شاید یہ بھول رہی ہیں کہ موجودہ عالمی بحران کی جڑیں کافی حد تک روس کے 2022 میں یوکرین پر کیے گئے حملے میں پیوست ہیں، جو آج تک جاری ہے۔ اگرچہ اس وقت روس کو اشتعال دلانے کی کوششیں ضرور کی گئی تھیں، لیکن اس حملے کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا طاقت کا مسلط کردہ نظام ہے، جس کے لیے اب روس امریکہ پر انگلی اٹھا رہا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہند، روس اور امریکہ کے تعلقات ایک نازک موڑ پر ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی، بائیڈن دور کی غلطیوں کی نشاندہی اور عالمی طاقتوں کی کشمکش کے بیچ ہندوستان کو اپنے قومی مفاد، اقتصادی تحفظ اور سفارتی توازن کو یکساں اہمیت دینی ہوگی۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف موجودہ بحران سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے بلکہ آئندہ برسوں میں ایک مضبوط اور خودمختار خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی فراہم کرے گا۔

atiqfaruqui001@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS