ہمالیہ کو مہنگی پڑ رہی گلیشیر کے تئیں لاپروائی : پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار سے یہ تو واضح ہو رہا ہے کہ اتراکھنڈ کے دھرالی گاؤں میں 5 اگست، 2025 کو ہونے والی تباہی کی وجہ بادل پھٹنا تو نہیں تھا کیونکہ وہاں صرف 28 ملی میٹر بارش ہی ہوئی تھی۔ تو کیا کھیر گنگا ندی کے بالائی آب گیری علاقوں میں واقع گلیشیر تالابوں کے پھٹنے سے یہ تباہی آئی؟ چند روز قبل ہی انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے ایک سیٹیلائٹ امیج جاری کی تھی اور بتایا تھا کہ کس طرح ہمالیہ کے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس کی وجہ سے کئی برفانی جھیلوں کا حجم دوگنا ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ 6 فروری، 2021 کو رینی گاؤں کے قریب چلنے والے پاور ہاؤس کے تباہ ہونے کی وجہ گلیشیر کا ایک حصہ ٹوٹ کر تیزی سے نیچے پھسل کر رشی گنگا ندی میں گرنا پائی گئی تھی۔ ہماچل پردیش سے اروناچل پردیش تک گزشتہ تین سالوں میں جو تباہی ہوئی ہے، اس سے یہ اشارہ تو ملتا ہے کہ ہمیںابھی اپنے پانی کی حیات کہلانے والے گلیشیروں کے بارے میں مسلسل مطالعہ کرنے اور باقاعدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ہمالیہ کی برف سے ڈھکی چوٹیوں پر موجود برف کے بڑے بڑے تودے جو کم از کم 3 فٹ موٹے اور 2کلومیٹر لمبے ہوں، ہمانی یا گلیشیر کہلاتے ہیں۔ یہ اپنے ہی وزن کی وجہ سے نیچے کی طرف کھسکتے رہتے ہیں۔ جس طرح ندی میں پانی ڈھالان کی طرف بہتا ہے، ویسے ہی گلیشیر بھی نیچے کی طرف کھسکتے ہیں۔ ان کی رفتار بہت سست ہوتی ہے، چوبیس گھنٹوں میں بمشکل 4 یا 5 انچ۔ زمین پر جہاں برف پگھلنے کے مقابلے میں برف باری زیادہ ہوتی ہے، وہیں گلیشیر بنتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہمالیہ کے علاقے میں تقریباً 18065 گلیشیر ہیں اور ان میں سے کوئی بھی 3 کلومیٹر سے کم کا نہیں ہے۔ ہمالیائی خطے کے گلیشیروںکے بارے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہاں سال میں 300 دن،ہر روز کم از کم آٹھ گھنٹے تیز دھوپ رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تھوڑی بہت گرمی میں یہ گلیشیرپگھلنے سے رہے۔

اسرو کی تازہ رپورٹ ملک کے لیے بہت خوفناک ہے کیونکہ ہمارے ملک کی لائف لائن کہلانے والی گنگا-جمنا جیسی ندیاں تو یہاں سے نکلتی ہی ہیں، زمین کے درجۂ حرارت کو کنٹرول رکھنے اور مانسون کو پانی دار بنانے میں بھی یہ برف کے بلاکس کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرو کی طرف سے جاری کردہ سیٹیلائٹ امیج میں ہماچل پردیش میں 4068 میٹر کی بلندی پر واقع گیپانگ گھاٹ برفانی جھیل میں 1989 سے 2022 کے درمیان 36.49 ہیکٹیئر سے101.30 ہیکٹیئر تک 178 فیصد توسیع دکھائی گئی ہے یعنی ہر سال جھیل کے حجم میں تقریباً1.96 ہیکٹیئر کا اضافہ ہوا ہے۔ اسرو نے کہا کہ ہمالیہ کی 2431 جھیلوں میں سے 676 برفانی جھیلوں نے 1984 سے 2016-17 کے درمیان 10 ہیکٹیئر سے زیادہ وسعت اختیار کی ہے۔ اسرو نے کہا کہ 676 جھیلوں میں سے 601 جھیلیں دوگنی سے زیادہ بڑھی ہیں جبکہ 10 جھیلیں ڈیڑھ سے دوگنی اور65 جھیلیں ڈیڑھ گنا بڑی ہو گئی ہیں۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ جن 676 جھیلوں نے توسیع اختیار کی ہے، ان میں سے 130 ہندوستان کی سرحد میں ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ برف پگھلنے سے بننے والی 14 جھیلیں4000 سے 5000 میٹر کی بلندی پر ہیں جبکہ 296 جھیلیں5000 میٹر سے بھی زیادہ کی بلندی پر ہیں۔ یاد رہے کہ شمال مغربی سکم میں 17,000 فٹ کی بلندی پر واقع جنوبی لہونک گلیشیر جھیل گزشتہ سال اکتوبر میں پھٹ گئی تھی۔ اس کی وجہ سے آئے سیلاب میں 40 افراد ہلاک اور 76 لاپتہ ہوگئے تھے۔ ہمالیہ کو بھی کچھ سال قبل پراچھو جھیل کے پھٹنے کی وجہ سے اسی طرح کے سانحے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ہمالیہ کو اتنے بڑے گلیشیروں اور برف پوش اونچی چوٹیوں کی وجہ سے تیسرے قطب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ خطہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ تقریباً 200 سال کے دوران جیسے جیسے دنیا میں صنعتیں شروع ہوئیں، گلیشیروں کے پگھلنے کی قدرتی رفتار بھی متاثر ہوئی۔ جب گلیشیر زیادہ تیزی سے پگھلتے ہیں تو اونچے پہاڑوں کی وادیوں میں بہت سی نئی جھیلیں بن جاتی ہیں اور پہلے سے موجود جھیلوں کی بھی توسیع ہوتی ہے۔ ایسی جھیلوں کو برفانی جھیلیں کہتے ہیں۔

یہ جھیلیں ندیوں کے پانی کے لیے ذریعہ ہوتی ہیں لیکن ان کا پھٹ جانا، یعنی گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف) ایک بڑی قدرتی آفت بھی ہوتی ہے۔ جب برف سے بنے ڈیم یعنی مورائن کے کمزور ہونے پر اکثر ایسے حادثات ہوتے ہیں۔
ہمالیہ ہند برصغیر کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ ہے اور اگر نیتی آیوگ کے سائنس اور ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کی طرف سے 2018 میں تیار کردہ پانی کے تحفظ سے متعلق رپورٹ پر یقین کریں تو ہمالیہ سے نکلنے والی 60 فیصد ندیوں میں پانی کی مقدار دن بہ دن کم ہو رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ یا زمین کا گرم ہونا، کاربن کے اخراج، موسمیاتی تبدیلیوں اور ٹھنڈک کا کام کرنے والے گلیشیروں پر آرہے خوفناک بحران اور اس کی وجہ سے پوری زمین کے وجود کو لاحق خطرات کی باتیں اب صرف چند ماحولیاتی ماہرین تک محدود نہیں رہی ہیں۔ یہ ساری دنیا کی تشویش ہے کہ اگر ہمالیہ کے گلیشیر اسی طرح پگھلتے رہے تو ندیوں میں پانی بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف بہت سے شہر اور دیہات زیرآب آ جائیں گے وہیں زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کو روکنے والی چھتری کی تباہی سے خوفناک خشک سالی ہوگی، سیلاب آئیں گے اور گرمی پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

ہمالیہ پہاڑ کے اتراکھنڈ والے حصے میں چھوٹے بڑے تقریباً 1439 گلیشیر ہیں۔ ریاست کے کل رقبے کا 20 فیصد حصہ ان برفانی چٹانوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان گلیشیروں سے نکلنے والا پانی پورے ملک کی زراعت، پینے کے پانی، صنعت، بجلی، سیاحت وغیرہ کے لیے زندگی کا واحد ذریعہ ہے۔ ظاہر ہے کہ گلیشیروں کے ساتھ ہوئی کوئی بھی چھیڑچھاڑ پورے ملک کے لیے ماحولیاتی، سماجی، اقتصادی اور تزویراتی بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔

تقریباً ایک دہائی قبل موسمیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی پینل (آئی پی سی سی) نے دعویٰ کیا کہ زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے ممکن ہے کہ 2035 تک ہمالیہ کے گلیشیر پوری طرح ختم ہو جائیں۔ مثال کے طور پر کشمیر کے کولاہائی گلیشیر کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ایک سال میں 20 میٹر سکڑ گیا جبکہ ایک دیگر چھوٹا گلیشیر غائب ہو گیا۔

سنجیدگی سے سوچیں تو پتہ چلے گا کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ان علاقوں میں ہی گلیشیر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں انسانی مداخلت زیادہ رہی ہے۔ واضح رہے کہ1953 کے بعد اب تک 3000 سے زائد کوہ پیما ایورسٹ کی چوٹی سر کر چکے ہیں۔ دوسرے بلند پہاڑی سلسلوں پر پہنچنے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ یہ کوہ پیما اپنے پیچھے بہت زیادہ کچرا چھوڑ کر آتے ہیں۔ انسانوں کی غیر ضروری نقل و حرکت کی وجہ سے ہی گلیشیر سہم-سمٹ رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ گلوبل نہیں لوکل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ جب تک گلیشیر کے اوپری اور نچلے حصوں کے درجۂ حرارت میں بہت زیادہ فرق ہوگا، اس کے بڑے حصہ میں ٹوٹنے،پھسلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ کئی بار دو حرکت پذیر برف کے تودے آپس میں ٹکرا کر بھی ٹوٹ جاتے ہیں، تاہم یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ گلیشیر کے قریب تعمیر کیے جانے والے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے لیے کیے جانے والے دھماکوں اور توڑپھوڑ سے پرسکون اور محفوظ رہنے والے زندہ برفانی پہاڑناخوش ہیں۔ ہمالین جیولوجی انسٹی ٹیوٹ کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ گنگا ندی کا اہم ذریعہ گنگوتری برف کا بلاک بھی اوسطاً 10 میٹر کے بجائے 22 میٹر سالانہ کی رفتار سے پیچھے کھسکا ہے۔ خشک ہوتی ندیوں کی بنیادی وجہ گلیشیر کے علاقے کی قدرتی شکل کا انہدام ہے۔

pc7001010@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS