ٹیرف کے اثرات اور اراکین پارلیمنٹ کی رائے : محمدعباس دھالیوال

0

محمدعباس دھالیوال

پچھلے کئی مہینوں سے، جب سے امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنی دوسری مدت کا آغاز کیا ہے، ہم اکثر ’ٹیر‘ نامی ایک لفظ مختلف خبروں اور سوشل میڈیا پر سنتے آ رہے ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے کہ امریکہ نے چین پر اتنا ٹیرف بڑھا دیا ہے، تو کبھی بھارت پر ٹیرف لگانے کی دھمکی دی جا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔آئیے آج ہم آسان زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ ’ٹیرف‘کیا بلا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ نے دنیا کے کئی ملکوں میں ایک طرح کی ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ کسی ملک کی طرف سے کسی دوسرے ملک سے درآمد کیے گئے سامان پر لگایا جانے والا ٹیکس۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی ملک کسی اور ملک سے سامان منگواتا ہے (یعنی درآمد کرتا ہے)، تو اس پر حکومت کی طرف سے جو ٹیکس لگایا جاتا ہے، اسے ٹیرف کہتے ہیں۔جب کوئی ملک دوسرے ممالک کی اشیا پر ٹیرف لگاتا ہے یا اس میں اضافہ کرتا ہے، تو اس کا مقصد ہو سکتا ہے۔اپنے ملک کی مقامی صنعتوں کی حفاظت کرنا، کیونکہ درآمد شدہ سامان مہنگا ہو جاتا ہے، جس سے لوگ مقامی مصنوعات کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔سرکاری آمدنی میں اضافہ کرنا، کیونکہ ٹیرف حکومت کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتا ہے۔

اقتصادی یا سیاسی دباؤ ڈالنا، جس کا اندازہ پچھلے کئی مہینوں سے صدر ٹرمپ کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اگر امریکہ بھارت سے جوتے منگواتا ہے اور ان پر 20÷ ٹیرف لگا دیتا ہے، تو 100 ڈالر کے جوتے امریکہ میں 120 ڈالر کے ملیں گے۔(یعنی اضافی 20 ڈالر ٹیرف کے طور پر دینے ہوں گے)جن لوگوں کو ’ٹیرف‘ سمجھ نہیں آتا، ان کے لیے امریکہ میں ٹیرف کا مطلب ہے درآمدی ٹیکس۔ یعنی امریکہ میں کسی دوسرے ملک سے آنے والے سامان پر جو ٹیکس لگتا ہے، اسے صدر ٹرمپ نے بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے درآمد شدہ اشیا کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی شہریوں کو بیرون ملک سے آنے والی اشیا کے لیے زیادہ ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔کچھ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس کا بھارت پر کیا اثر پڑے گا؟حقیقت یہ ہے کہ بھارت سے امریکہ بھیجا جانے والا مال اکثر کم منافع والا ہوتا ہے، کیونکہ چین، ویتنام، پاکستان جیسے ممالک بھی ایسا ہی مال امریکہ کو بھیجتے ہیں۔اب جب بھارت پر سب سے زیادہ ٹیرف لگا دیا گیا ہے، تو صدر ٹرمپ بھارتی برآمد کنندگان کو بیرونی حریفوں کے مقابلے میں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

جب بھارت سے امریکہ کو ہونے والی برآمدات کم ہوں گی تو یہاں روزگار، کاروبار، پیداوار، تجارت پر بہت منفی اثر پڑے گااور کروڑوں نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔دنیا کے باقی بازاروں میں وہی سامان بھیجنا اتنا آسان نہیں ہے۔ادھر امریکی صدر کی طرف سے ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے بعد اور خاص طور پر حالیہ 25 فیصد اضافی ٹیرف کے بعد کانگریس کے رکن ششی تھرور نے ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ یہ سراسر ناانصافی ہے، چین ہم سے دو گنا زیادہ تیل روس سے خریدتا ہے اور انہیں 90 دن دیے گئے ہیں، جبکہ ہمیں صرف تین ہفتے!اگر میں ان سب پر غور کروں، تو یہ کسی اور طرح کے اشارے لگتے ہیں۔ واشنگٹن کی طرف سے جو پیغامات آ رہے ہیں، انہیں ہماری حکومت کو سمجھ کر مناسب جواب دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگر وہ لوگ ایسا کریں گے، تو ہمیں بھی امریکی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف لگانا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ہمیں ایسی دھمکیاں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہر بھارتی اس مسئلے میں ایک آواز ہے۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے کانگریس کے ہی ایک اور رکن عمران مسعود نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے کہاکہ وہ کل 100 فیصد ٹیرف بھی لگا سکتے ہیں۔ ہماری خاموشی کے باعث وہ یکطرفہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہم ٹرمپ کے بھروسے پر روٹی نہیں کھا رہے۔ اگر ٹرمپ کے بھروسے پر روٹی ملتی، تو ایران کے لوگ بھوکے مر جاتے۔ ایران نے خود کو ثابت کیا ہے اور ہمیں بھی کرنا ہوگا۔عمران مسعود نے مزید کہاکہ ہمارا بہت بڑا ملک ہے۔ ہمیں پیداوار پر مبنی معیشت کو اپنے ملک میں نافذ کرنا چاہیے۔ سیاحت کے شعبے کو فروغ دینا چاہیے۔ان کا کہنا تھاکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف ‘آتم نربھر’ (خود انحصاری) کا نعرہ نہ لگائیں، بلکہ حقیقتاً خود انحصار بنیں۔

abbasdhaliwal72@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS